بدھ، 31 جنوری، 2018

ذرا دل کے مسئلے سے نکل لیں
پھر دنیا تو جیت ہی لیں گے
عذرا مغل

سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں ٹرمپ پالیسی

تحریر:محمدصدیق پرہار
 امریکی صدرٹرمپ نے اپنے پہلے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں کہا ہے کہ ہماری پالیسی کے چارستون ہوں گے۔امیگریشن، بارڈر سیکیورٹی ، گرین کارڈ،پناہ گزینوں سے متعلق پالیسی میں تبدیلی لائیں گے۔امریکی صدرنے اپنی پالیسی کے چارستون بتائے ہیں ۔ اس سے پہلے وہ افغان پالیسی کے نام پرپاکستان پالیسی کااعلان بھی کرچکے ہیں۔سٹیٹ آف دی یونین سے اپنے پہلے خطاب میں ٹرمپ نے اپنی جوپالیسی بتائی ہے۔ اس میں بھی نام لیے بغیر پاکستان کے بارے میں پالیسی بھی شامل ہے۔امریکی صدرنے اپنی پالیسی کاپہلاستون امیگریشن بتایا ہے۔ اس پالیسی پرتواس نے صدارت کاحلف اٹھاتے ہی عمل شروع کردیاتھا۔اس نے صدارت کاحلف اٹھاتے ہی کئی مسلمان ممالک پرامریکہ آنے پرپابندی لگادی تھی۔اس سے اس پابندی کے بعد متاثرہ ممالک کے شہریوں کوپروازوں سے اتاردیاگیاتھا۔ انہیں واپس بھیج دیاگیا۔ٹرمپ کی اس پالیسی پردنیابھرمیں تنقیدہوئی۔امریکی عدالتوں نے بارباراس پابندی کوکالعدم قراردیا۔امریکی عدالتوںمیں امیگریشن پالیسی پرشکست کے باوجودٹرمپ ٹس سے مس نہ ہوا۔اس نے پابندی ختم نہ کی۔ایک وقت آیا کہ امریکی عدالت نے بھی امیگریشن قوانین پرٹرمپ کے حق میںفیصلہ دے دیا۔اپنی اس پالیسی کواس نے پھردہرایاہے۔ اپنے حالیہ خطاب میں امریکی صدرنے کانگریس سے یہ مطالبہ بھی کیاہے کہ وہ نئی قانون سازی کے ذریعے امیگریشن قوانین کودرست کرے۔ ٹرمپ کاکہناہے کہ کھلی سرحدوںکامطلب ملک میںمنشیات اورگینگ کی آمدہے ۔ اس نے کہا کہ کانگریس امیگریشن نظام میںوہ خامیاں دورکرے جس کے ذریعے جرائم پیشہ گروہ امریکہ میں آتے ہیں۔ٹرمپ کہتا ہے کہ ایک امیگرینٹ لامتناہی تعدادمیں فیملی امریکالاسکتاہے۔تاہم صرف شوہر،بیوی اورکم عمربچے آنے چاہییں۔میرٹ کی بنیادپرامیگریشن سسٹم لاناوقت کی ضرورت ہے۔ٹرمپ نے خطاب میں کہا کہ امیگریشن قوانین میںخامیوںکی وجہ سے کرمنل گینگ ملک میں آتے ہیں۔گیگزنے ملکی قوانین کے کمزورپہلوئوںکافائدہ اٹھایا۔اس سے پہلے ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی کاہدف مسلمان تھے۔ اس امیگریشن پالیسی میں مسلمانوںکانام تونہیں ہے۔ اس نے امیگریشن قوانین میں خامیوںکودورکرنے اور قوانین درست کرنے کی بھی بات کی ہے۔قوانین میں خامیاں دورکرنے اورقوانین کودرست کرنے کے بعدہی معلوم ہوسکے گاکہ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی کاہدف بھی صرف اورصرف مسلمان ہی ہیں یااس کادائرہ دیگرمذاہب اورممالک تک بھی پھیلادیاگیا ہے۔امریکی صدرنے کہا کہ امیگریشن قوانین میں خامیوں کی وجہ سے کرمنل گینگ ملک میں آتے ہیں۔ اس نے یہ بھی کہا کہ کھلی سرحدوںکامطلب ملک میںمنشیات اورگینگ کی آمدہے۔اس کااشارہ امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کی طرف ہوسکتاہے۔امرکی صدرکہناچاہتا ہے کہ امیگریشن قوانین میںخامیوں کی وجہ سے جرائم پیشہ افرادامریکامیںآجاتے ہیں ۔نئی امیگریشن پالیسی کے تحت ٹرمپ امیگرینٹ کے ساتھ لاتعدادفیملی کوامریکاآنے سے روکناچاہتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ امریکاآنے والے امیگرینٹ کے ساتھ لامتناہی فیملی نہ آئے بلکہ صرف شوہر، بیوی اورکم عمربچے ہی آئیں۔ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ ٹرمپ بیرون ملک سے کم سے کم افرادکوامریکامیں آنے دیناچاہتے ہیں۔وہ اپنے ملک میں غیرملکیوں کی آمدکوکم سے کم کرناچاہتے ہیں۔ٹرمپ نے میرٹ کی بنیادپرامیگریشن سسٹم لاناوقت کی ضرورت قراردیا۔ابھی تو اس بارے کچھ نہیںکہاجاسکتا کہ امریکامیں امیگریشن کے لیے کیامیرٹ بنایاجاتا ہے۔میرٹ بناتے وقت کیامعیاراختیارکیاجاتاہے۔ یہ تومیرٹ امیگریشن سسٹم سامنے آنے بعدہی معلوم ہوسکے گا۔جومیرٹ اپنایاجائے گاوہ وقت آنے پرہی معلوم ہوسکے گا۔ ایک بات واضح ہے کہ امیگریشن سسٹم میں میرٹ سسٹم نافذ کرکے ٹرمپ امریکامیں باہرسے آنے والوں کی تعدادکم سے کم کرناچاہتے ہیں۔وہ مختلف پالیسیوں، قوانین اورمیرٹ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ لوگوںکوامریکامیں آنے سے روکناچاہتے ہیں۔امریکی صدرکہتا ہے کہ بغیردستاویزات والدین کے ساتھ آنے والوںکوتعلیم کی بنیادپرشہریت ملے گی۔شہریت کی یہ شرط بھی امریکا میں غیرملکیوںکی آمدکوکم کرناہے۔امریکی صدرنے اپنی پالیسی کے چارستون بتائے ہیں۔اس کی پالیسی کے پہلے ستون امیگریشن پالیسی پرعمل ہوجائے توبقیہ تین ستونوں پربھی عمل ہوجائے گا۔امریکی صدرکاکہناہے کہ کھلی سرحدوںکامطلب ملک میںمنشیات اورگینگ کی آمدہے۔اس سے یہ بھی واضح ہوتاہے کہ امریکامیں منشیات کاکاروباربھی پھیل چکاہے اوروہاںمنشیات کے استعمال کرنے والوں کی تعدادمیں اضافہ ہورہا ہے۔ٹرمپ امریکامیں منشیات کے بڑھتے ہوئے استعمال کوامیگریشن قوانین میں خامی کی وجہ سمجھتے ہیں۔ٹرمپ کی حالیہ امیگریشن پالیسی سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ مختلف پالیسیوں، قوانین اورمیرٹ کے ذریعے باہرسے آنے والے زیادہ سے زیادہ لوگوںکوروکنے کامقصدامریکاکومحفوظ بنانابھی ہوسکتاہے۔امریکی صدرکی حالیہ امیگریشن پالیسی کامقصدامریکاکومحفوظ بنانا اور دہشت گردوں کی آمدکوروکناہی ہے تویہ بات بھی واضح ہوچکی ہے کہ امریکاکومحفوظ بنانے کے لیے مختلف مسلمان ممالک پرجنگیںمسلط کرنے، مسلم ممالک کوبرائی کامحورقراردینے، مسلمان ملکوں پرامریکاکے لیے خطرہ قراردے کرحملے کرنے، ڈیڑھ دہائی تک پاکستان میں ڈرون حملے کرنے ،امریکامیں آنے والے مسلمانوں کی تلاشی کے نام پرتذلیل کرنے اور دہشت گردی کے خلاف ڈیڑھ دہائی سے جاری جنگ کے بعدبھی امریکاپہلے سے بھی زیادہ غیرمحفوظ ہوگیا ہے۔ہماری اس بات کی تصدیق ٹرمپ کی اس بات سے بھی ہوتی ہے جس میں امریکی صدرنے کہا ہے کہ ہم سب مل کرامریکاکومضبوط، محفوظ اورقابل فخربنارہے ہیں۔ہمارے سامنے ٖغیرمعمولی چیلنجزتھے۔جوشایدکوئی تصوربھی نہ کرسکے۔ٹرمپ کاکہناہے کہ پچھلے ایک سال میں توقع سے بڑھ کرکامیابی ملی۔ہماراعزم ہے کہ امریکاکوعظیم تربنایاجائے۔جوہری اثاثوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امریکی صدرنے کہا ہم ان کی ایسے حفاظت کریں گے جیسے کبھی کسی نے نہیں کی ہوگی۔ہم امریکی جوہری ہتھیاروںکومزیدجدیدبنائیں گے۔امریکی جوہری ہتھیارکتنی تباہی مچاسکتے ہیں اس کااندازہ امریکہ کی طرف سے جاپان کے دوشہروںمیں گرائے جانے والے دوبموں کی تباہی سے لگایاجاسکتاہے۔امریکی صدرنے ان جوہری ہتھیاروںکوجدیدبنانے کااعلان کیا ہے۔اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکی صدر جاپان میں امریکی بموں کی تباہی کوکم سمجھتاہے۔وہ چاہتا ہے کہ امریکی جوہری ہتھیارزیادہ سے زیادہ تباہی مچائیں۔ایک طرف دنیاکومحفوظ بنانے کے لیے امریکادہشت گردی کے خلاف جنگ لڑرہا ہے تودوسری طرف تباہی مزیدتباہی مچانے والے ہتھیاربنانے کااعلان بھی کررہا ہے۔ اس سے دنیااوربھی غیرمحفوظ ہوجائے گی محفوظ نہیں۔امریکی جوہری ہتھیاروںکوجدید، مضبوط اورمحفوظ بنانے کااعلان شمالی کوریاکے صدرکی اس دھمکی کاجواب بھی ہوسکتا ہے جس میں شمالی کوریا کے صدرنے کہاتھا کہ جوہری ہتھیاروں کے بٹن میری میزپرپڑے ہیں۔ہماری اس بات کی تصدیق ٹرمپ کی اس بات سے بھی ہوجاتی ہے جس میں اس نے کہا ہے کہ شمالی کوریاسے بڑھنے والے خطرات کوکم کریں گے۔امریکی صدرنے شمالی کوریاکوبگڑاہواکہتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ٹرمپ نے خبردارکیاکہ بیانگ یانگ کی جانب سے ایٹمی میزائلوںکی تیاری کے اندھادھندپروگرام سے بہت جلدہمارے ملک کوخطرہ لاحق ہوسکتاہے۔ہم اسے روکنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دبائوڈالنے کی مہم شروع کررہے ہیں۔امریکی صدرنے کہا کہ یروشلم کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کیاتوجنرل اسمبلی میںامریکاکے خلاف قراردادمنظورکی گئی ۔ٹرمپ کاکہناہے کہ ہمارے خلاف ووٹ دینے والوں کوامریکی امدادبھیجی گئی۔وعدہ کرتے ہیں امریکی ٹیکس دینے والوںکاپیسہ امریکاکے دوستوںکوامدادکی مدمیںملے گا اوردشمنوںکونہیں ملے گا۔ٹرمپ نے کہا کہ ہمارے خلاف ووٹ دینے والے ممالک کوبیس ارب ڈالرکی امدادبھیجی گئی۔امریکی امداددشمنوں کی بجائے دوستوں کے پاس جانی چاہیے۔امریکی صدرکس کس کوامریکاکادوست اورکس کس کودشمن سمجھتے ہیں۔ اس بات کااعلان ٹرمپ نے اپنے پہلے سٹیٹ آف دیونین خطاب میں کر دیا ہے۔ جس جس ملک نے امریکاکی طرف سے یروشلم کواسرائیل کادارلحکومت تسلیم کرنے کے خلاف جنرل اسمبلی میںلائی گئی قراردادمیںامریکاکے حق میں ووٹ دیاوہ امریکاکادوست ہے اورجس جس ملک نے امریکاکے خلاف ووٹ دیاوہ دشمن ہے۔یہ بات توپوری دنیاجانتی ہے کہ اس قراردادمیں کتنے ممالک نے امریکاکے خلاف ووٹ دیااورکتنے ملکوںنے اس کے حق میں ووٹ دیا۔ا مریکاکی دوستی اوردشمنی کے اس معیارکودیکھاجائے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ دنیامیں اب امریکاکے دشمن اس کے دوستوںکی نسبت بہت زیادہ ہیں۔اس کی وجہ امریکی دوغلی پالیسیاں ہیں۔امریکی صدرنے ایک اورمسلمان ملک کوبھی اس کانام لیے بغیر امریکاکادشمن قراردیا ہے وہ ملک ہے پاکستان۔ پاکستان کوٹرمپ کس طرح امریکاکادشمن سمجھتاہے ۔ اس بات کوسمجھنے کے لیے یہ پڑھیں کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان کانام لیے بغیراسٹیٹ آف دی یونین سے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ افغانستان میںامریکاکی فوج نئے ضوابط کے ساتھ لڑرہی ہے اورہم مصنوعی ڈیڈلائن بتاکرافغانستان میں دشمنوںکوچوکنانہیںکریں گے۔افغانستان میں اس وقت پاکستان، بھارت اورامریکاکرداراداکررہے ہیں۔امریکابھارت کونہ پہلے اپنادشمن سمجھتاتھا نہ اب سمجھتاہے۔ ہندوستان پہلے بھی امریکاکادوست تھاسواب بھی وہ اس کادوست ہے۔اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ٹرمپ نے پاکستان کوہی دشمن کہا ہے۔اب آتے ہیں امریکی صدرکی اس بات کی طرف جس میں اس نے کہا ہے کہ امریکی امدادامریکاکے دشمنوںکونہیں دوستوںکوملنی چاہیے۔جیساکہ پہلے لکھاجاچکا ہے کہ امریکی صدرنے کہا کہ ہم وعدہ کرتے ہیں کہ امریکی ٹیکس دینے والوںکاپیسہ امریکاکے دوستوںکوملے گادشمنوں کونہیں۔کسی اورملک کے بارے میں توکچھ نہیںکہاجاسکتا یہ بات ضرورواضح ہے کہ دوستی اوردشمنی کے معیار، پیمانے اورمیرٹ کی پالیسی کے تحت پاکستان کی امداد ضرور بند کرنے کی بات کی گئی ہے۔جس نے جنرل اسمبلی میںامریکاکے خلاف ووٹ دیا وہ امریکادشمن ہے۔ پاکستان نے بھی امریکاکے خلاف ہی ووٹ دیا بلکہ یہ قرارداد پاکستان نے ہی پیش کی تھی۔جس نے امریکاکے خلاف ووٹ دیاوہ توامریکاکادشمن ہوااورجس نے اس کے خلاف جنرل اسمبلی میں قراردادپیش کی وہ تو اس کاسب سے بڑادشمن کہلائے گا۔ادھرافغانستان میں جس ملک کوٹرمپ نے دشمن کہا ہے وہ پاکستان ہی ہے۔پاکستان کی ہی امددبندکی جارہی ہے۔ا مریکی امدادبندکرنے کی دھمکی ٹرمپ پہلے بھی کئی باردے چکے ہیں۔ پاکستان کی امدادمستقل بندکرنے کابل امریکی سینٹ میں بھی پیش کیاجاچکاہے۔سٹیٹ آف دی یونین سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا کہ کانگریس یقینی بنائے کہ داعش اورالقاعدہ کے خلاف جنگ میں ہم دہشت گردوںکوگرفتارکرسکیں گے۔یہ بات کرکے ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ امریکابمباری توکرسکتاہے دہشت گردوںکوگرفتارنہیںکرسکتا۔اس نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ امریککازمینی جنگ بھی نہیںلڑسکتا۔یہ اعتراف بھی ہوسکتاہے کہ افغانستان میں ڈیڑھ دہائی سے جاری جنگ کے باوجودامریکااب بھی افغانوںکازمینی جنگ میںمقابلہ نہیںکرسکتا۔یہ ٹرمپ کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شکست کااعتراف بھی ہے۔امریکی صدرکاکہناتھا کہ بیرون ملک سے گرفتارکیے جانے والے دہشت گردوں سے دہشت گردوں والاسلوک کیاجاناچاہیے۔گوانتاموبے جیل کھلی رکھنے کااعلان بتارہا ہے کہ ٹرمپ مستقبل کی پلاننگ رکھتے ہیں۔گوانتاموبے کاعقوبت خانہ کھلارکھنے کا اعلان یہ بھی بتارہا ہے کہ امریکی ظلم اورجبروتشددمیں مزیداضافہ ہونے جارہا ہے۔ا س جیل میں قیدیوں پرکیے جانے والے انسانیت سوزسلوک کے ختم ہونے کا ابھی کوئی امکان نہیں ہے۔یہ جیل بندنہیںہوگی تودہشت گردی کے خلاف جنگ بھی جاری رہے گی۔ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے عوام اپنے کرپٹ حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے توامریکانے ان کاساتھ دیا۔ٹرمپ بھول گئے یاجان بوجھ کران جان بن گئے کہ ایران کی عوام نے امریکاکاساتھ دینے کاجواب اس کے خلاف تاریخی احتجاج کرکے دے دیا ہے۔اس لیے ایران کی عوام کاساتھ دینے پرٹرمپ کوافسوس کرناچاہیے۔ٹرمپ کاکہناہے کہ داعش کے خلاف اتحادنے عراق اورشام میں سوفیصدحصہ آزادکرالیاہے جب کہ ابھی مزیداقدامات باقی ہیں۔ابوبکربغدادی سمیت کئی دہشت گردایسے تھے جنہیںامریکانے پکڑاپھررہائی دی۔ایسے دہشت گردوںکاپھرمیدان جنگ میںسامناکرناپڑاہے۔امریکاکے علاوہ دنیامیںکوئی اورقوم ایسی نہیں ہے جوبھاری چیلنجزکوقبول کرے۔ہمیں آپس کے اختلافات کوبھی ختم کرناہے تاکہ ہم ترقی کے لیے مزیدآگے بڑھ سکیں۔ٹرمپ نے روزگار،انفراسٹرکچر،امیگریشن، تجارت اورقومی سلامتی پربھی اظہارخیال کیا۔
 امریکی صدرٹرمپ کے ہرخطاب کاہدف بلواسطہ یابلاواسطہ، نام لے کریانام لیے بغیرپاکستان ہی رہا ہے۔گزشتہ ایک سال کے دوران ٹرمپ نے جب بھی خطاب کیایاکوئی ٹویٹ جاری کیا تواس میں پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی کوضروربیان کیا۔یوں لگتا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی، دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی اورامریکی امدادروکنے کی پالیسی کاہدف صرف اورصرف پاکستان ہے۔اس سے پہلے وہ پاکستان کوکولیشن سپورٹ فنڈز کے تحت دیے جانے والے پیسہ کوامریکاکی غلطی قراردے چکے ہیں۔ٹرمپ کے باربارپاکستان کونشانہ بنانے کامقصدیہاں کی حکومت اورعوام پردبائوڈال کراپنی مرضی کے فیصلے اوراقدامات کرانابھی ہوسکتاہے۔ٹرمپ کویہ ذہن نشین کرلیناچاہیے کہ پاکستان اب اس کے کسی دبائو یالالچ میںنہیں آئے گا۔امریکااب پاکستان سے کوئی بات نہیںمنواسکتا۔امریکاآرڈرپاکستان پرچلاتاہے اوردوستیاں بھارت سے نبھاتاہے۔امریکی صدرکے سٹیٹ آف دی یونین خطاب ڈیموکریٹس نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ٹرمپ کی طرف سے اپنے پہلے سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں چین کوامریکی اقدارکے لیے خطرات کی فہرست میں شامل کرنے پرچین نے تنقیدکرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکاسردجنگ کی ذہنیت کوترک کردے۔ٹرمپ نے اپنے اس خطاب میںکہا کہ چین اورروس ہمارے مفادات ،ہماری معیشت اورہمارے اقدارکے لیے ایک چیلنج بن گئے ہیں۔
رابطہ کیلئے: siddiqiueprihar@gmail.com

ایک اداس شام

 بات تشنگی کی تووہ اکثروبیشتر رہ جایا کرتی ہے دوستی کے سرور سے لے کر عشق کے ظہور تک اور باتوں کی برسات سے لے کر یادوں کی بارات تک ،احمد مشتاق یادآئے
 روز ملنے پہ بھی لگتا ہے کہ جگ بیت گئے 
عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے
دلوں سے اٹھنے والے دھویںبھلا کہا ں دکھائی دیتے ہیں اس بات کی تہہ تک پہنچنے کے لیے دل کی آنکھوں کا جاگنا ضروری ہے، پانچ برس ہونے کو آئے جبکہ اس قافلہ عشق کا پہلا قدم سرزد ہوا درویش کی بات یا دآئی میدان عشق کاپہلاقدم ہی گہہ شہادت کا قدم ہے وقت کی گھڑیاں تیزی سے گزر کر ماضی کاحصہ بنتی رہیں عشق کی منزلیںبرق رفتاری سے طے ہوتی ر ہیں ،پہلا سال گزرگیاپھر دوسرا حتٰی کہ پانچ سال پلک جھپکنے میں گزرگئے انہی لمحات کو بیان کرتے ہوئے شاعرنے قلم توڑدیا تھا 
ابھی تو گوش بر آوازتھی بھری محفل
 کہاں پر تونے کہانی کا اختتام کیا 
ہا ں مگر کہانی زندہ رہتی ہے بلکہ زندہ جاوید،کردار پیوندخاک ہوجاتے ہیں ۔ بانی پرنسپل کو شاندار طریقے سے مدعو کیا جا تا چاہیے تھا ۔ میرپور آزادکشمیررومی کشمیرحضرت میاں محمد بخش کی دھرتی میںواقع محترمہ بینظیر بھٹو میڈیکل کالج کے دوسرے فارغ التحصیل ہونے والے بیج (M2) کی الوداعی پارٹی تھی جس کے میزبان M3کے طلباء وطالبات تھے بانی پرنسپل کو مدعو کرنے میں کالج انتظامیہ سے ضرور لغزش ہوئی ہے ،پروفیسر ڈاکٹر زبیر بھی نظر نہ آئے ،خیرریٹائرڈ ہونے والی کسی بھی شخصیت کو یوں بے دردی سے نہیں بھلایا جاتا ،بہرحال فراغ دلی کاموقع گنوا دیا گیا ۔
انسان کو خامیوں سے فرار ممکن نہیں ، اس کا حل ان غلطیوں سے سبق حاصل کرنا ہوتا ہے ہمارے یہاں اختلاف کسی بھی نظریہ کی بجائے اس شخصیت سے کیا جا تا ہے جو جلدہی نفرت کا روپ دھار لیتا ہے ، مخالفت نظریہ کی ہوتی ہے مضبوط اور توانا دلیل کے ساتھ، زندگی کا سبق یہی کہ زندگی اپنی اچھائیوں پر بسر ہوتی ہے ،دوسروں کی خامیوں پر نہیں ، تنقید کر نے کے لیے حوصلہ درکار ہوتاہے اورتعریف کر نے کے لیے۔۔۔ اس سے بھی کہیں زیادہ، احمد عطایا دآئے
 جوبھی مانگتاہے دے دیتا ہوںمیں اسکورستہ 
میں تو صحرائوں میںمجنوںکی مدد کر تا ہوں
 پانچ سال آزادکشمیر یونیورسٹی کے ساتھ الحاق کی پوری قیمت جھکانا پڑی ،لیکن میڈیکل اداروں کے الحاق کا تجربہ یونیورسٹی کے لیے بھی نیاتھا امتحانات کا انعقاد وقت پر نہ ہو پاتا ، اور نتائج کا اعلان بھی کسی کفر کے خدا خدا کرکے ٹوٹنے کی طرح ہوتا، چنانچہ طلباء کا مطالبہ یہ رہا کہ آزادکشمیریونیورسٹی سے الحاق ختم کرکے یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسزلاہور سے الحاق کیا جا ئے اور ایسا ہی ہوا،الحاق ہوگیا اور طلبا ء کا یہ درینہ مسئلہ بھی حل ہوگیا ۔ خداکے ذکر کے بعد سب فارغ التحصیل ہونے والے ڈاکٹرزکو انتہائی فرینڈلی ماحول کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف ٹائیٹلزسے نوازا گیا جس کو ہال میں موجودہ تمام سامعین نے بے حد پسند کیا ۔ثوبان قمر کی گائیگی نے خوب داد سمیٹی توعبدالرحمان کی شعلہ بیانی نے بھی خوب دل گرمائے کالج فیکلٹی کی ایک بڑی تعداد تقریب میں موجود تھی جن میں پروفیسر ڈاکٹر فیصل بھوپال ، پروفیسر ڈاکٹر شہبازکیانی،پروفیسر ڈاکٹراظہرقیوم ،پروفیسر ڈاکٹر فیصل بشیر سرجن ڈاکٹر ، ثاقب سماعیل ،ڈاکٹر تنویرصادق کالج کے قائم مقام پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر شوکت موجود تھے، اس کے علاوہ آبروصحافت الطاف حمیدرائو اور علی اختر سلیم نے بھی محفل شرکت کرکے شکریہ کا موقع فراہم کیا ،یاد رہے کہ اس بیج کے پانچ سال مکمل ہونے سے پہلے ایک بیج کالج ہذا سے فارغ التحصیل ہوچکا ہے جس میں شامل کپٹن ڈاکٹر باسط نے پاکستانی سپاہ کی طرف سے Sword of Caneکا اعزاز حاصل کیا جو ادارے اور طلبا ء و اساتذہ کے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے آج مورخہ 31جنوری کو کالج کی چھٹی سالگرہ منائی گئی ساتھ ہی نئے پرنسپل محترم پروفیسر ڈاکٹر عمران بٹ نے بھی اپنی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا اُن کا عزم یقینا کالج کو مزید آگے لے کر جائے گا حسب معمول ڈاکٹر حسنات سرگرم نظر آئے لیکن کالج میگزین کو منظر عام تک لانے کے لیے انھیں پھر کمربستہ ہونا پڑے گا ، ڈاکٹر ہاشم کچھ انتظامی معاملات پر دُکھی ہیں یہ کہانی پھر سہی ۔
بات الواعی تقریب کی ہورہی تھی جہاں دانش میرکو ’’رونق محفل ‘‘قرار دیا گیا ، بات وہی ابتدائیہ والی دلوں میں اُٹھنے والے دھویںبھلا کہاں دکھائی دیتے ہیں ، تیز آندھی کا رخ آج تک کون موڑ سکا ہے ۔

اولاد کی صالح تر بیت دینی و سماجی ضرورت

تحریر:حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی جمشید پور الھند 
ہر شخص کی تمنا ہو تی ہےکہ اس کی اولاد نیک ہو، لیکن صرف خواہش سے کچھ
 نہیں ہوتا، بلکہ خود بھی نیک ہو نا لا زم ہے۔نیک اولاد اﷲ کی بہت بڑی نعمت ہے ہمارے نبی ﷺ کے جدّ امجد حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اﷲ سے دعا کی۔
پارہ 23؍سورہ والصّفٰت آیت نمبر 100؍ رَبِّ ہَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْن اِلٰہی مجھے نیک اولاد دے ۔ اﷲ نے فرمایا فَبَشَّرْنٰہُ بِغُلَامٍ حَلِیْم پارہ 23؍سورہ والصّفٰت آیت نمبر 101(ترجمہ کنزا لایمان) تو ہم نے اسے خوشخبری سنائی ایک عقلمند لڑکے کی۔ متعدد جگہ قرآن میں اﷲ نے اولاد جیسی نعمت کا ذکر فرمایا سورہ مریم آیت نمبر 6(ترجمہ کنزا لایمان) اے ذکریا ہم تجھے خوشی سناتے ہیں ایک لڑکے کی جس کا 
نام یحیٰ ہے ۔
اس سے معلوم ہوا نیک و صالح بیٹا اﷲ رب العزت کی بڑی رحمت و نعمت ہے کہ 
رب کریم نے اس سورہ میں فرزند صالح (نیک ) کو رحمت و نعمت فرمایا اس سے معلوم ہوا کہ بیٹے کی دعا کرنا سنت انبیاء ہے مگر اس لیے کہ وہ توشۂ آخرت ہو(ہاں بیٹی پیدا ہونے کا غم کرنا کفار کا طریقہ ہے) مفسرین، علماء، فقہائے کرام فرماتے ہیں یوں تو سبھی نعمتیں اعلیٰ ہیں پر ایمان کی دولت و اولاد کی نعمت تمام نعمتوں میں اعلیٰ نعمت ہے نعمتوں کے بارے میں فرمان الٰہی ہے پارہ 13؍رکوع 16؍ سورہ ابراہیم آیت نمبر 33؍ وَاَتٰکُمْ مِنْ کُلِّ مَا سَالْتُمُوہُ وَ اِنْ تَعُدُّ وْنِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا ط اِنَّ الْاِنْسَانَ لَظَلُوْمٌ کَفَّار (ترجمہ کنزالایمان)اور تمہیں بہت کچھ منہ مانگا دیا اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے بے شک آدمی بڑا ظالم نہ شکرا ہے ۔ تہماری ہر قسم کی منہ مانگی مرادیں کروڑوں نعمتیں تمہارے بغیر مانگے تمہیں انعام میں عطا کیں ۔ اور بہت سی نعمتیں منہ مانگے بخشیں ہم تمہاری ضرورتیں تم سے زیادہ جانتے ہیں ہماری عطا ،ہمارا انعام تمہارے مانگنے پر (موقوف) نہیں کیوں کہ تمہارے ہر رونگٹے پر کروڑوں نعمتیں ہیں اور جب تمہیں اپنے بالوں کا شمار نہیں تو ہماری دی ہوئی نعمتوں کا شمار کیسے ہو سکتا ہے تمہاری گنتی سنکھ پر ختم ہوتی ہے اور وہاں سنکھ سے ابتدا ہوتی ہے ۔
اولاد اﷲ رب العزت کی بہت بڑی نعمت ہے : والدین کی خوبیوں کا امین، ان کے خوابوں کی تعبیر،نسلی امتداد (درازیٔ نسل) کا محرک ،آنکھوں کی ٹھندک،قوت بازو اور خانگی نیرنگیوں کی روح اولاد ہی کا عکس جمیل ہے۔ اگر اولاد نہ ہو تو گھر اندھیرا اور سونامعلوم ہوتا ہے۔اولاد عطا کرنے کا اختیار اﷲ رب العزت کے سوا کسی کو نہیں،وہ جسے چاہتا ہے بیٹا دیتا ہے جسے چاہتا ہے بیٹی دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹا اور بیٹی دونوں عطا کرتا ہے ،کسی عورت کو بانجھ کر دیتا ہے اور کسی مرد میں یہ صلاحیت ودیعت نہیں فرماتا ہے پارہ 25؍رکوع5 ؍سورہ شوریٰ آیت نمبر 48-49؍(ترجمہ کنزالایمان) اﷲ ہی کے لیے ہے زمین و آسمان کی سلطنت پیدا کرتا ہے جو چاہے ،جسے چاہے بیٹیاں عطا فرمادے اور جسے چاہے بیٹے دے یا دونوں ملا دے بیٹے اور بیٹیاں،اور جسے چاہے بانجھ کر دے بیشک وہ علم اور قدرت والا ہے۔ (تفسیر نور العرفان جلد اول صفحہ 779)صاحب تفسیر فرماتے ہیں حقیقی شہنشاہ وہی ہے وہ جسے چاہے حکومت بخشے جیسے بادشاہوں کو ظاہری بادشاہی بخشی، اور اولیا ء اﷲ کو باطنی سلطنت عطا فرمائی ۔معلوم ہوا کہ اولاد محض عطائے ربانی ہے۔بڑے قوی طاقتور لوگ ،دولتمند لوگ اولاد سے محروم دیکھے گئے ہیں، کمزوروں کا گھر بیٹوں سے بھرا ہو اہے خیال رہے بزرگوں اور اولیاء اﷲ کی دعاؤں سے اولاد ملنا بھی رب کی عطا ہے جیسے حضور ﷺ کی دعا سے حضرت ابو طلحہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا گھر اولاد سے بھر گیا۔ یہ سب صورتیں انبیاء کرام میں بھی پائی جاتیں ہیں چنانچہ حضرت لوط علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام کے یہاں صرف لڑکیاں تھیں ،حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صرف لڑکے تھے ،ہمارے حضور ﷺ کو اﷲ نے لڑکے ،لڑکیاں دونوں عطا فرمایا،حضرت یحیٰ علیہ السلام و حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کوئی اولاد نہیں تھی،حضرت آدم علیہ السلام کو صرف مٹی سے پیدا کیا جن کے نہ باپ ہے نہ ماں،حضرت حوّا علیہا السلام کو آدم علیہ السلام سے پید اکیا ان کی ماں نہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صرف عورت سے پیدا کیا ان کا باپ نہیں اور باقی تمام انسانوں کو مرد اور عورت کے ملاپ سے پیدا کیا ان کے باپ بھی ہیں اور مائیں بھی ہیں ۔جب اولاد کی نعمت اور وسائل رزق کی فراوانی ،صحت و عافیت کی نعمتیں مل جاتیں ہیں تو انسان تکبر اور غرور کا اظہار کرنے لگتا ہے حالانکہ اﷲ کی نعمتوں پر خوش ہونا یا اس کا اظہار کرنا برا نہیں ،لیکن وہ تحدیث نعمت کے طور پر ہو ناکہ بڑائی کے لیے۔
اولاد جیسی نعمت کی قدر یہ ہے کہ حتیٰ الامکان اس کی قدرو قیمت کو سمجھا جائے اس پر توجہ دی جائے۔ مذہب اسلام میں پیدائش سے پہلے ہی ہدایت کا اہتمام کیا گیا ہے لوگ بچوں کے سلسلے میں ہمیشہ تغافل (غفلت) سے کام لیتے ہیں ان کی تربیت سے چشم پوشی نہ صرف یہ کہ ایک معاشرتی اور اخلاقی جرم ہے بلکہ خود ان کے اور ان سے متعلق قوم و ملک کے مستقبل کو تباہ کرنے کے مترادف ہے یہی وجہ ہے کہ حضور سید عالم ﷺ نے بچوں کی تربیت کو عبادت اور ان کو ایک کلمہ خیر سکھادینے کو صدقہ دینے سے زیادہ بہتر قرار دیا ہے۔ 
قرآن کریم نے بچوں کی آخرت کی ناکامیوں کی ذمہ داری والدین کے سر ڈالی ہے اور خاص کر ایمان والوں کو مخاطب کیا قرآن ارشاد فرما رہا ہے پارہ 28؍ سورہ تحریم آیت نمبر 6؍ یٰاَیُّھٰاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْ اَنْفُسَکُمْ الخ۔ (ترجمہ کنزالایمان) اے ایمان والوتم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہونگے، اس پر ایسے فرشتے مقرر ہیں جو بڑے تند خو(یعنی سخت دل ) سخت مزاج ہیں جو ارشاد انہیں فرمایا جاتا ہے فوراً بجا لاتے ہیں ،نا فرمانی نہیں کرتے اﷲ کی جس کا اس نے حکم دیا ہے جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو حضرت عمر رضی اﷲ عنہ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ذمہ داریوں کے احساس سے بہت متاثر اور فکر مند ہوئے آپ حضور ﷺ کے پاس آئے اے اﷲ کے رسول ﷺ اپنے آپ کو دوزخ سے بچانے کا مفہوم تو سمجھ میں آگیا مگر اہل و عیال کو کیسے جہنم سے بچا سکتے ہیں آ پ ﷺ نے ارشاد فرمایا جن چیزوں سے خدا نے تمہیں روکا ہے تم اپنے اہل و عیال کو روکواور جن کاموں کو انجام دینے کا حکم فرمایا ہے تم ان کا اپنے اہل و عیال کو حکم دو۔
سب سے اچھا تحفہ اولاد کے لیے : ترمذی شریف میں حضرت ایوب موسیٰ رضی اﷲ عنہ اپنے والد اور اپنے دادا کے واسطے سے روایت کرتے ہیں رسول اﷲ ﷺ نے فرمایااچھی تربیت سے زیادہ ایک باپ کا اپنے اولاد کے لیے کوئی عطیہ (انعام نہیں)ایک دفعہ سرکار ﷺ نے فرمایا کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر کوئی عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اسے اچھی تعلیم دے(ترمذی شریف کتاب ابروالصلتہ باب ما جاء فی الادب الوالد) ۔ حضرت مولائے کائنات علی مرتضیٰ رضی اﷲ عنہ کا قول ہے ’’ بچوں کو ادب سکھاؤ اور تعلیم دو‘‘۔ حضرت ابن سیرین سے منقول ہے اولاد کی عزت کرو اور اسے بہترین ادب سکھاؤ، اولاد صالح (نیک) کی تمنا رکھنے والوں کے لئے شریعت نے یہ بھی رہنمائی فرمائی ہے کہ جس وقت مرو ، عورت کے پاس اور انزال (ملنے کا وقت) ہو جائے تو اسے یہ دعا پڑھنی چاہئیے تاکہ اولاد صالح (نیک )ہو شیطانی اثرات سے پاک ہو۔
بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰھُمَّ جَنَّبْنِیْ الشَّیْطَانَ وَ جَنََّبِ الشَّیْطَانَ مَا رَزَقَنِیْ۔((ترجمہ)بسم اﷲ اے اﷲ مجھے شیطان سے دور رکھ اور شیطان کو میری اولاد سے دور فرما۔ اﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ جو یہ دعا پڑھ لے تو اسکی اولاد کو کبھی شیطان نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ (بخاری شریف، مسلم شریف) جب بیوی امید سے ہو تو زن و شوہر باہم محبت و انس اور یگانگت کا مظاہرہ کریں آپس میں لڑیں جھگڑیں نہیں اس لیے رحم مادر میں پرورش پانے والا جنین خارجی موثرات کی گرفت میں ہوتا ہے جس طرح کیمرے کی آنکھیں جسم کے اندر مخفی گوشوں تک پہنچ کر ایک ایک چیز کو گواہ بنا دیتی ہے۔ ایسے ہی جنین(وہ بچہ جو رحم مادر میں ہو) کی پرورش میں والدین کے سلوک کو خاصہ دخل ہوتا ہے۔ ایسے وقت میں اﷲ کی طرف رجوع کرتے رہنا چاہیئے جبکہ حمل کے دوران ڈاکٹروں سے رجوع کرتے رہتے ہیں تاکہ ولادت کا مرحلہ آسان ہو تو جس ذات نے اس جنین کے استقرار اور نشونما کا سامان کیا ہے اس رب العزت کی طرف بدرجہ اولیٰ توجہ کرنا اور اس کو راضی رکھنے کی فکرکرنا قریب عقل قرار دیا جائے گا، قرآن پاک میں اس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے پارہ 9؍ رکوع 13؍ سورہ اعراف آیت نمبر 81؍ (ترجمہ کنزالایمان) تو جب حمل ظاہر ہوگیا تو دونوں نے اپنے رب سے دعا کی ضرور اگر ہمیں جیسا چاہئیے (نیک) بچہ دے گا تو بے شک ہم شکر گزار ہوں گے،اچھے بچے ملنے پر تیری عبادت اور شکرگزاری کروں گا۔ 
حضرت لقمان علیہ السلام کے ارشادات میں ہے ’’باپ کا ادب کی تعلیم کے لئے اولاد کو مارنا کھیتی کے لئے آسمان کی بارش کے مثل ہے‘‘ (باپ کی مار اولاد کے لیے مثل بارش ہے) شیخ سعدی شیرازی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں ’’استادکی سزا ماں باپ کے پیار سے بہتر ہے‘‘ ’’الادبُ منَ الاباء والصلاح من اﷲ تعالیٰ‘‘ ادب بزرگوں سے اور نیکی اﷲ سے ہے۔ ادب بزرگ سکھائیں گے ،نیک اﷲ بنائے گا۔ من ادب ابنہ صغیراً قرت عینہ، جس نے بیٹے کو بچپن میں ادب سکھایا بڑے ہونے پر اس سے اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی۔ اﷲ کی اس نعمت (اولاد) کی قدر یہ ہے کہ حتیٰ الامکان اس کی قدر و قیمت کو سمجھا جائے اس پر توجہ دی جائے اور اس کے جو تقاضے ہیں انہیں پورا کیا جائے ۔ ایک عبرت ناک واقعہ ملاحظہ فرماتے چلیں میرا ایک شخص کے یہاں جانا ہوا چھوٹا بچہ بہت رورہا تھا،رونے کی وجہ معلوم کرنے پر انکشاف ہوا کہ بجلی نہیں ہونے کی وجہ کر رو رہا ہے، مجھے حیرت ہوئی کہ اتنی سخت سردی کے موسم میں پنکھے کا کیا کام،معلوم ہوا ٹی وی (T.V)نہیں چل رہی ہے،بچہ گانا سن کر سوتا ہے،بچہ دو ماہ کا ہو چکا تھا،آذان و اقامت بھی نہیں سنائی گئی تھی (نعوذ باﷲ) قارئین اندازہ لگائیں تربیت کا ۔ پھر شکایت کی کہ بچہ والدین کا نا فرمان ہے۔ ترمذی اور ابو داوٗد شریف میں حضرت ابو رافع صحابیٗ رسول ﷺ سے روایت ہے میں نے رسول اﷲ ﷺ کو دیکھا وہ (اپنے نواسے)حسن ابن علی (رضی اﷲ عنھما) کے کان میں نماز کی آذان پڑھتے ہوئے جب (حضور کی شہزادی) حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں ان کی ولادت ہوئی۔
اولاد اﷲ کی عطا و نعمت ہے۔نعمت کے بارے میں ارشاد باری ہے پارہ 14؍ سورہ نحل آیت نمبر 17؍ وَ اِنْ تَعُدُّوْ نِعْمَتَ اللّٰہِ لَا تُحْصُوْھَا الخ (ترجمہ کنزالایمان) اور اگر اﷲ کی نعمتوں کو گنو تو انہیں شمار نہ کر سکوگے بے شک اﷲ بخشنے والا مہربان ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہزارہا نعمتیں داخلی ہم کو عطا فرمائیں اسمیں اولاد بھی ہے اور کچھ خارجی نعمتیں بھی عطا فرمائیں اور دونوں نعمتیں ہماری شمار سے باہر ہیں چہ جائیکہ ان کا شکریہ ادا ہو،باوجود بندوں کے کفر و شرک و سر کشی کے اپنی نعمتیں بند نہیں فرماتا اور بڑے سے بڑا گناہ توبہ سے معاف فرما دیتا ہے ۔
آج کے ماحول میں بچوں سے بے اعتنائی بڑھتی جارہی ہے ،حصول دولت کی دوڑ میں انسان اس قدر لگے رہتے ہیں کہ وہ بچوں کے بارے میں سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے بالخصوص مغربی ممالک میں بچے قانون اور امن کے لیے ہزاروں مسائل پیدا کر رہے ہیں امریکہ و یوروپ میں آئے دن اسکولوں میں اندھادھند گولیاں چلانا ،سیکڑوں کو موت کے گھاٹ اتار دینا برابر اخبار کی سرخیاں بنتی رہتی ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ ان بچوں کی تربیت اسلامی اقدار (طور طریقے) کے مطابق کی جائے تاکہ وہ بڑے ہوکر ملک و قوم ،خاندان و معاشرہ اور خود اپنی ذات کے لیے مفید ثابت ہو سکے۔ اﷲ ہم مسلمانوں کو اس مضمون سے عمل کی توفیق رفیق اور فائدہ نصیب فرمائےآمین ثم آمین۔
رابطہ کیلئے09386379632:
 hhmhashim786 @gmail.com 
الحاج حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی مصباحی خطیب و امام مسجدھا جر ہ رضویہ اسلام نگر کپالی وایا مانگو جمشید پور الھند

پیر، 29 جنوری، 2018

شام کی نئی پالیسی ناکام،امریکہ دہشت گردوں کے ساتھ کھڑا ہےنیویارک ٹائمز کا دعویٰ

نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک،نیٹ نیوز)واشنگٹن انتظامیہ کی شامی پالیسی امریکہ کے سرفہرست اخباروں کی تنقید کا ہدف بنی ہوئی ہے۔روزنامہ نیو یارک ٹائمز نے خبر کو "امریکہ دہشتگردوں کے ساتھ ایک ہی صف میں " کی سرخی کے ساتھ شائع کیا ہے۔اخبار نے عفرین میں دہشت گرد عناصر اور واشنگٹن انتظامیہ کے تعلق کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور کہا ہے کہ عفرین میں PKK/PYD-YPG کے دہشت گردوں نے ترک فوجیوں پر حملے کئے لیکن واشنگٹن انتظامیہ، اپنے نیٹو اتحادی پر حملے کرنے والے، دہشت گردوں کے ساتھ ایک ہی صف میں شامل ہے۔
واشنگٹن پوسٹ نے کہا ہے کہ امریکہ کی نئی شامی پالیسی ناکام ہو سکتی ہے۔اخب
 نے کہا ہے کہ علاقے کے بارے میں اسٹریٹجک پالیسی کے حتمی شکل اختیار نہ کرنے کی صورت میں امریکہ ناکام ہو سکتا ہے۔خبر میں مزید کہا گیا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ اگرچہ شام میں طویل المدت مفادات کا اعلان کھلے بندوں کر رہی ہے لیکن اپنے اس اعلان کا کسی پلان کے ساتھ تاحال رابطہ قائم نہیں کر سکی۔ واشنگٹن کے شام میں اس وقت تک کے عزائم ناکافی ہیں۔

پاکستان کیلئے اچھی خبر،قرضے معاف کر دیئے گئے

اسلام آباد(حرمت قلم ٹیم)پاکستانی معیشت ملکی و غیرملکی قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبی ہوئی ہے ایسے میں یورپ سے ایک ایسی خوشی کی خبر آ گئی ہے کہ سن کر پاکستانیوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔اٹلی نے پاکستان کے 6ارب 40کروڑ روپے کے قرضے معاف کر دیئے ہیں اوراس کاپاکستان کے ذمے جو قرض باقی رہتا ہے وہ بھی رواں سال کے اختتام تک معاف کر دے گا۔اس باقی قرض کی معافی کے لیے پاکستان اور اٹلی کے مابین ایک معاہدہ متوقع ہے جو 2018 کے اختتام تک ہو جائے گا۔واضح رہے کہ قرضوں کی معافی کے ساتھ ساتھ اٹلی نے گلگت بلتستان معاشی اصلاحاتی اقدامات کے لیے 2کروڑ 25لاکھ یورویعنی تقریباً3ارب9کروڑ روپے اور حکومتی پروگرام ٹیوٹا کے لیے 2کروڑ یورو تقریباً74لاکھ روپے کے قرضے آسان شرائط پر دینے کی منظوری دے دی ہے۔

دو چینی فراڈیوں کو ایک سال قیداور جرمانہ

کراچی(مانیٹرنگ ڈیسک)پاکستان میں چینی باشندوں کے ساتھ وہ ہو گیا جس کی امید کسی کو نہ تھی۔دو چینی باشندوں کو نہ صرف گرفتار کیا گیا بلکہ ایک سال کی سزا بھی سزا دی گئی۔کراچی میں اے ٹی ایم فراڈ میں ملوث دو چینی باشندوں کو جرم ثابت ہونے پر ایک، ایک سال قید اور 50 ہزار روپے فی کس جرمانے کی سزا سنا دی گئی جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے پر مزید 6 ماہ کی سزا بھگتنا ہوگی۔
دو چینی فراڈیوں کو ایک سال قیداور جرمانہ
خیال رہے کہ کچھ دنوں قبل کراچی کے علاقے بہادر آباد میں اے ٹی ایم سے رقم چرانے کے الزام میں پولیس نے دونوں چینی باشندوں کو گرفتار کرکے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے حوالے کیا تھا جبکہ ملزمان کے خلاف سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔جوڈیشل مجسٹریٹ شرقی کی عدالت مین آج ہونے والی سماعت کے دوران دونوں ملزمان کو پیش کیا گیا۔پیشی کے دوران ایف آئی اے حکام کی جانب سے عدالت کو بتایا گیا کہ یہ ملزمان سے اسکیمنگ مشین کے ذریعے اے ٹی ایم سے ڈیٹا ہیک کرتے تھے اور رقم چوری کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ ملزمان کی گرفتاری کے وقت ان سے ساڑھے 6 لاکھ روپے اور جعلی اے ٹی ایم کارڈ بھی ملے تھے، جن پر پن کوڈ بھی درج تھا۔یاد رہے کہ ملک میں اے ٹی ایم اسکیمنگ فراڈ کی خبریں اس وقت منظر عام پر آئی تھیں جب حبیب بینک نے اپنے 559 صارفین سے ایک کروڑ سے زائد رقم چوری ہونے کی تصدیق کی تھی۔بینک کی جانب سے کہا گیا تھا کہ انڈونیشیا، چین اور دیگر ممالک کو کی گئی ٹرانزیکشن پکڑی گئی تھیں۔ایف آئی اے نے اپنی سفارشات میں کہا تھا کہ بینک اے ٹی ایم کے لیے پرانی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں اور اے ٹی ایم بوتھ میں دہائیوں پرانے طرز کا سیکیورٹی نظام قائم ہیں جو اس طرح کے گینگ کے لیے آسان ہدف بن جاتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود اور انکے انکشافات!


 تحریر:شیخ خالد زاہد
پاکستانیوں کیلئے ہر نیا صدمہ پرانے صدمے سے کہیں زیادہ افسردہ کردینے والا ہوتا ہے ۔ سن ۲۰۱۸ پاکستانیوں کیلئے سوگوار فضاء کی چادر تنے چلے جا رہا ہے ۔جس کی وجہ کئی نامور شخصیات ایک کے بعد ایک دارِ فانی سے کوچ کرتی چلی گئیں اور فضاء کی سوگواری میں اضافہ کرتی چلی گئیں۔ تقریبا ً یہ تمام اموات طبعی تھیں ۔ اہل پاکستان انکے لئے دل کی گہرائیوں سے مغفرت کیلئے دعا گو ہیں۔ابھی ان قبروں کی مٹی خشک بھی نہیں ہوئی ہوگی کے ایک انتہائی دل دہلادینے والا سانحہ ہوگیا جس میں تقریباً ۸ سالہ بچی زینب کو درندگی کا نشانہ بنایا گیا اوربے دردی سے قتل کردیا گیا، ابھی اس واقع پر ساری قوم سوگ کی حالت میں تھی کہ کراچی میں دو جواں سال نو جوانوں کو قانون کے رکھوالوں نے موت کی نیند سلا دیا۔ ہر صدمہ دوسرے صدمے کو بھی ہرا کرتا چلا جا رہا ہے ۔مگرقصور شہر میں زینب نامی بچی کے ساتھ جو ہوا اسنے پوری قوم کو ایک بر پھر اتحاد کی لڑی میں پرونے کا کردار اداکیا اور پوری قوم نے ہر پلیٹ فارم پر نا صرف اس بہیمانہ قتل کی مذمت کی بلکہ قاتل کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا کا مطالبہ بھی کیایہاں تک کے اس واقع کے مجرم کو اسلام کی طے کردہ سزا دینے کا بھی مطالبہ سنائی دیا جا رہا ہے۔ 
یوں تو زینب جیسے دلدوز واقعات ملک کے مختلف حصوں میں ہوتے ہی رہے ہیں اور اس واقع کے بعد بھی ایسے واقعات کی خبریں آنا بند نہیں ہوئی ہیں۔ تازر ترین مردان کا واقعہ ہے اور ابھی ایک خبر دیکھی ہے جس کا تعلق کوئٹہ سے ہے ۔ جیسا کہ پہلے بھی لکھا جا چکا ہے کہ زینب اب ایک تحریک کا نام ہے اور تحریکیں روکی جاتیں ہیں دبائی جاسکتی ہیں اورانہیں ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش بھی کی جاسکتی ہے لیکن جب تحریک میں خون شامل ہوجائے تو وہ بغیر کسی متطقی انجام کے لپیٹی نہیں جاسکتی۔ اس پر مکمل یقین ہے کہ ظلم کی انتہاء ہوتی ہے جبھی تو قدرت نے ہر فرعون کیلئے ایک موسی پیدا کیا ۔ زینب معاملے کی نوعیت اور اس میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اوراس پر عوامی بیداری کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں پاکستان کی اعلی عدلیہ نے اہم کردار کرنے کیلئے کمر کسی ہے بلکل اسی طرح پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو بھی عدلیہ کی معاونت کیلئے اگلے قدموں پر چلنا پڑا، اور ملزم کی گرفتاری بھی عمل میں آگئی ۔ بظاہر تو عمران علی نامی ملزم کی گرفتاری نے تقریباً سارا معاملہ سمیٹ ہی دیا تھا کہ ایسے میں پاکستانی صحافت کی ایک انتہائی معتبر اور نامی گرامی شخصیت جنکی بنیادی وجہ شہرت انکا ایک تاریخ ساز پروگرام دی اینڈ آف ٹائم بھی رہا ہے، آپ ڈاکٹر شاہد مسعود صاحب ،جو ملک کے سرکاری ٹیلی میڈیا سمیت دیگرمیڈیا ہائوسز کے اعلی عہدوں پر اپنے فرائض منصبی نبہاتے رہے ہیںجوپاکستان میں بہت کم شخصیات کو میسر آتا ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے زینب کے معاملے کی بنیاد پر کچھ ایسے انکشافات عوام اور سرکار کے سامنے رکھ دئیے جو کہ اکیسویں صدی سے تو ہم آہنگ ہیں مگر پاکستانی عوام کیلئے قطعی طور پر ناقابل ہضم دیکھائی دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کی بناء پر قابل احترام چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب نے بھی ملاقات کی ہے اور ان تمام انکشافات کی گہرائی تک جانے کا اندیہ بھی دیا ہے ۔اب جب کے میرا یہ مضمون اپنے اپنی تکمیل کی جانب گامزن ہے تو ڈاکٹر صاحب شدید دبائو کی زد میں ہیں اور یہ دبائو اس لئے ان پر آن پڑا ہے کہ دیگر معتبر صحافتی برادری نے ان پر اعتماد نہیں کیا اور ساتھ بھی نہیں دیا جس پر ڈاکٹر صاحب نے ان تمام نامی گرامی شخصیت کو بھی اس گھمبیر صورتحال کا ذمہ دار ٹھیرا دیا ہے۔ 
شائد آج سے پہلے کسی کی آبروریزی ہوجاناور قتل کر دیا جانا جیسی باتیں بہت تکلیف دہ اور دل دہلانے والی تو ہوا کرتی تھیں مگر زینب کے واقع کے بعد سے جو واقعات و انکشافات کا ایک پنڈورا بکس کھلنا شروع ہوا ہے یوں لگ رہا ہے کہ جیسے اب شائد آنکھوں میں نیند نہیں آئے گی۔ ہماری ویب رائٹرز کلب کے سینئر نائب صدر جناب مسرت صاحب نے معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ڈیپ ویب اور ڈارک ویب پاکستانیوں کیلئے تو نئی ہوسکتی ہے مگر دنیا تو اس پر ۱۹۹۰ کی دہائی میں کام کرچکی ہے بلکہ قانون سازی بھی کرچکی ہے۔ پاکستان میں بہت سارے ایسے کام جو محاورتً کہتے ہیں کہ انیس سو ڈیڑ میں دنیا نے کر لئے تھے ہمارے یہاں اب ہو رہے ہیں۔ یہ ہمارے تعلیمی نظام پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ کیا یہ ہماری سراسر قومی بدقسمتی نہیں ہے کہ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنے ہی نہیں دیا جاتا بلکل ایسے ہی جیسے گائوں دیہاتوں میں کسی کسان کا بچہ اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکتا اگر اس نے اعلی تعلیم حاصل کرلی تو زمینداروں وڈیروں کے ظلم و ستم کون سہے گا۔ ایک تو ہمیں مشکلات میں الجھا کر رکھا جاتاہے اور ان سے نکلنے کے سدباب کرنے کا اہل ہونے سے بھی روکا جاتا ہے۔ 
تمام باتوں سے قطعہ نظر تمام صحافی برادری کو ڈاکٹر صاحب کی معاونت کرنی چاہئے تھی جب کہ انہیں انتہائی سخت مخالفت نما چیز کا نا صرف سامنا کرنا پڑا ہے بلکہ پڑ رہاہے۔ ہمارا مقصد یہ قطعی نہیں ہے کہ جیسا وہ کہہ رہے ہیں اسے من و عن یقین کرلینا چاہئے تھا ہونا یہ چاہئے کہ انکے ساتھ مل کر معاملے کی طے تک جانے کی کوشش کرنی چاہئے تھی۔ ان لوگوں کے اس طرح سے شور کرنے سے وہ تمام لوگ جو اس جرم کا کسی بھی طرح سے حصہ ہیں چکنے ہوگئے ہونگے اور قوی امکان ہے کہ ملک سے فرار بھی ہوگئے ہونگے۔ 
گزشتہ ایک دوروز میں ہماری خفیہ انجسیوں نے اس مسلئے کی حقیقت تک رسائی کیلئے اپنی کاروائیاں تیز کردی ہیں اور ابھی ایک ہی دن گزرا ہے تو جھنگ سے ایک ایسے ہی گروہ کا جس کا ذکر محترم ڈاکڑ صاحب نے کیا ہے گرفتاری بمعہ سازو سامان عمل میں آئی ہے۔ ابھی دیکھتے جائیے کہ کیا کچھ منظرِ عام پر آنے والا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کچھ بھی بغیر منظر عام پر لائے ہوئے بڑے پیمانے پر کاروائیاں ہوں جو کہ کسی حد ناممکن دیکھائی دیتا ہے دور حاضر میں تو گھر کے اندر کی باتیں سوشل میڈیا کی زینت بن جاتیں ہیں تو پھر یہ تو ابھی انتہائی تہلکا خیز مواد ہے۔ ان انکشافات سے جہاں پاکستان میں اسطرح کی سرگرمیوں میں ملوث افراد چکنے ہوئے ہونگے وہیں دنیا جہان میں معاملات پر کڑی نگرانی شروع ہوگئی ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ دنیا کے کئی ممالک میں اس حوالے سے کاروائیاں بھی کی گئی ہوں جنہیں منظر عام پر لاکر ملکوں کو بدنامی سے بچانے کی کوشش بھی کی جا سکتی ہے ۔ ایک ہمارا ملک ہے جہاں غلط کو غلط کہنے کیلئے کوئی تیار نہیں ہوتا ۔ یہاں شخصی منافرت کی وجہ سے ملک کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ ڈاکٹر صاحب اپنے آپ کو واضح کر سکیں یا نا کرسکیں مگر انہوں نے ایک بیج بودیا ہے کہ ایسا بھی کچھ دنیا میں چل رہا ہے اور ہم بھی اس کا شکار ہورہے ہیں ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم پاکستانی تحریک زینب کو آپریشن زینب کے نام سے کب یاد کرینگے۔ عدالت اعظمی کب خفیہ اداروں کو بھرپور کاروائی کرنے کی اجازت دیگی۔ 

اتوار، 28 جنوری، 2018

دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

پشاور کے محلہ خداداد میں 11دسمبر 1922کو پیدا ہونے والے دلیپ کمار کی حالت تشویشناک ہو گئی،کسی بھی وقت موت کی وادی میں داخل ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹروں اور گھریلو ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ لیجنڈری اداکار دلیپ کمار آخری سانسیں لے رہے ہیں مگر کچھ نہیں کہا جا سکتا وہ کب تک زندہ رہیں گے۔دلیپ کمار کا نام اداکاری سے پہلے یوسف خان تھا اور وہ پھلوں کے سواگر تھے وہ اپنے اہلخانہ کیساتھ 1933میں کاروبار کے سلسلے میں ممبئی منتقل ہوئے ۔1966ء میں انہوں نے اداکارہ سائرہ بانو سے شادی کی
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
دلیپ کمار نے 6دہائیوں کے فلمی کریئر میں صرف 63 فلمیں کیں لیکن انہوں نے ہندی سنیما میں اداکاری کے فن کو نئی معنویت نئی تعریف دی۔دلیپ کمار بھارت کے بہترین فٹ بال کھلاڑی بننے کا خواب دیکھتے تھے۔فلم والوں کے بارے میں ان کے والد کی رائے بہت اچھی نہیں تھی اور وہ ان کا نوٹنكي والا کہہ کر مذاق اڑاتے تھے۔اپنی آپ بیتی میں دلیپ کمار نے یہ تسلیم کیا کہ وہ مدھوبالا سے متاثر تھے ایک اداکارہ کے طور پر بھی اور ایک عورت کے طور پر بھی۔دلیپ کہتے ہیں کہ مدھوبالا بہت ہی زندہ دل اور پھرتيلي خاتون تھیں، جن میں مجھ جیسے شرميلے اور سوچ کر بولنے والے شخص سے بات چیت کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی تھی۔لیکن مدھوبالا کے والد کی وجہ سے یہ محبت کی کہانی بہت دنوں تک نہیں چل پائی۔مدھوبالا کی چھوٹی بہن مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’ابا کو یہ لگتا تھا کہ دلیپ ان سے عمر میں بڑے ہیں۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
 اگرچہ وہ میڈ فار ايچ ادر تھے۔ بہت خوبصورت جوڑی تھی۔ لیکن ابا کہتے تھے اسے رہنے ہی دو۔ یہ صحیح راستہ نہیں ہے لیکن وہ ان کی سنتی نہیں تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ وہ ان سے محبت کرتی ہیں لیکن جب بی آر چوپڑا کے ساتھ نیا دور فلم پرکورٹ کیس ہو گیا، تو میرے والد اور دلیپ صاحب کے درمیان تنازع پیدا کرنا ہو گیا۔مدھر بھوشن کہتی ہیں: ’عدالت میں ان کے درمیان معاہدہ بھی ہو گیا۔ دلیپ صاحب نے کہا کہ چلو ہم لوگ شادی کر لیں۔ اس پر مدھوبالا نے کہا کہ شادی میں ضرور کروں گی لیکن پہلے آپ میرے والد کو 'ساری کہیں۔ لیکن دلیپ کمار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے یہاں تک کہا کہ گھر میں ہی ان کے گلے لگ جائیں لیکن دلیپ کمار اس پر بھی راضی نہ ہوئے۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مغل اعظم‘ بننے کے درمیان نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ دونوں کے درمیان بات تک بند ہو گئی۔مغل اعظم، کا وہ کلاسک پنکھوں والا رومانٹک منظر تب فلمایا گیا تھا، جب مدھوبالا اور دلیپ کمار نے ایک دوسرے کو عوامی طور پر پہچاننا تک بند کر دیا تھا۔سائرہ بانو سے دلیپ کمار کی شادی کے بعد جب مدھوبالا بہت بیمار تھیں، تو انھوں نے دلیپ کمار کو پیغام بھجوایا کہ وہ ان سے ملنا چاہتی ہیں۔ دلیپ کمار اور مدھو بالا کی محبت فلم ترانہ کے دوران پروان چڑھی تھی
جب وہ ان سے ملنے گئے تب تک وہ بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ دلیپ کمار کو یہ
 دیکھ کر دکھ ہوا۔ ہمیشہ ہنسنے والی مدھوبالا کے ہونٹوں پر اس دن بہت کوشش کے بعد ایک پھیکی سی مسکراہٹ آ پائی۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے
مدھوبالا نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا: ہمارے شہزادے کو ان کی شہزادی مل گئی، میں بہت خوش ہوں۔23 فروری سنہ 1969 کو صرف 35 سال کی عمر میں مدھوبالا کا انتقال ہو گیا۔
سال فلم کردار ایوارڈ
 1944ء Jwar Bhata زگدیش 1945ء مائما 1947ء میلان رمیش جوگنو سورج 1948ء شہید رام Nadiya کے آرپار میلے موہن گھر کی عزت چندا منفرد پیار اشوک 1949ء شبنم منوج انداز دلیپ 1950ء جوگن وجے باب اشوک آرجو بادل 1951ء ترانا موتیلال Hulchul کشور دیدار Shamu 1952ء Sangdil شنکر داغ شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آن جی تلک 1953ء Shikast ڈاکٹر رام سنگھ فٹ پاتھ کی Noshu 1954ء امر امرناتھ 1955ء اڑن ھٹولا Insaniyat دیوداس دیوداس، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ آزاد، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1957ء نیا دور شنکر، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مسافر 1958ء Yahudi پرنس مارکس بمتی آنند / Deven نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1959ء پیغام رتن لال نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1960ء کوہنور فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ مغل-E اعظم شہزادہ سلیم 1961ء Gunga جمنا Gunga نامزدگی، فلمفیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1964ء کے رہنما وجے کھننا فاتح، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1966ء دل دیا درد لیا شنکر / Rajasaheb نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1967ء رام اور شیام رام / شیام، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1968ء Sunghursh نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ہے! اور Shatan آدمی راجیش / راجہ صاحب نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1970ء Sagina مہتو گوپی گوپی نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1972ء داستان انیل / سنیل منفرد میلان 1974ء Sagina نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ پھر کیب Milogi 1976ء Bairaag نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1981ء انقلاب Sanga / انقلاب 1982ء Vidhaata شمشیر سنگھ شکتی Ashvini کمار، فاتح فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1983ء مزدور دیناناتھ سکسینا 1984ء دنیا موہن کمار Mashaal ونود کمار نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ 1986ء درم Adhikari کرما وشوناتھ پرتاپ سنگھ عرف رانا 1989ء قانون اپنا اپنا کلیکٹر دنیا پرتاپ سنگھ 1990ء Izzatdaar برہما دت آگ کا Dariya 1991ء سودہر ٹھاکر سنگھ نامزدگی، فلم فار فیئر بہترین اداکار کا ایوارڈ ویر 1998ء قلعہ Jaganath / امرناتھ سنگھ = فلم = اس زمانے کی معروف اداکارہ اور فلمساز دیوکا رانی کی جوہر شناس نگاہوں نے بیس سالہ یوسف خان میں چھپی اداکاری کی صلاحیت کو بھانپ لیا اور فلم ’جوار بھاٹا‘ میں دلیپ کمار کے نام سے ہیرو کے رول میں کاسٹ کیا۔اس کے بعد سے اس شخص نے بھارتی فلمی صعنت پر ایک طویل عرصے تک راج کیا۔اور آن ۔ انداز ۔ دیوداس ۔ کرما ۔ سوداگر جسی 
مشہور فلموں میں کام کیا۔
دلیپ کمار آخری سانسیں لینے لگے

ہفتہ، 27 جنوری، 2018

عوام نے میری نااہلی مسترد کر دی،تحریک عدل یقینی بنائینگے،کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا:نواز شریف

جڑانوالہ(حرمت قلم نیوز) صدر مسلم لیگ ن نواز شریف نے جڑانوالہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ آج عوام نے میری نااہلی کا فیصل مسترد کر دیا ہے،تحریک عدل کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے گا کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا،جب بھی عوام سے کوئی وعدہ کیا، اسے پورا کیا، 7 سال جلاوطنی میں اور 14 ماہ جیل میں گزارے، 13 سال بعد دوبارہ آئے تو ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا، ہم نے آ کر لوڈ شیڈنگ ختم کی۔ مشرف نے مارشل لاء لگا کر پاکستان کو تباہ کر دیا اور پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے وزیر اعظم کو جلا وطن کر دیا، آج پاکستان پھر انتشار کا شکار ہو رہا ہے
عوام نے میری نااہلی مسترد کر دی،تحریک عدل یقینی بنائینگے،کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا:نواز شریف
 میرے دور میں ڈرون حملے بند ہوئے تھے، آج ڈرون حملے پھر شروع ہو گئے ہیں۔نواز شریف نے مزید کہا کہ ہم نے پاکستان کو خود مختار ملک بنایا تھا، نیا پاکستان بنانے کی بات کرنیوالوں سے پوچھیں انہوں نے ملک کو کیا دیا؟ انہوں نے دھرنے، جھوٹ اور بہتان تراشی کےعلاوہ کچھ نہیں کیا، ہم نے دل و جان سے پاکستان کی خدمت کی، مجھےعوام نے وزیر اعظم بنایا تھا، مجھے کوئی نہیں نکال سکتا، میرا عوام سے محبت کا رشتہ کوئی نہیں توڑ سکتا، عوام کا فیصلہ ہمیشہ حتمی ہوتا ہے، آج کل تمام کیسز میرے خلاف لگے ہوئے ہیں، جب تک عوام میرے ساتھ ہیں، فیصلے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔نواز شریف بولے، وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو پارٹی صدارت سے بھی ہٹا دو، میں پوچھتا ہوں پارلیمنٹ نے قانون بنایا ہے، وہ کس طرح اس قانون کو ختم کر سکتے ہیں؟ اگر مجھے پارٹی صدارت سے ہٹایا تو پھر قوم خود نوٹس لے گی، تحریک عدل میں فوری انصاف کو یقینی بنائیں گے، شہباز شریف نے پنجاب میں بے پناہ کام کئے۔
عوام نے میری نااہلی مسترد کر دی،تحریک عدل یقینی بنائینگے،کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا:نواز شریف
انہوں نے مزید کہا کہ جلسے میں شیروں کا جم غفیر ہے، یہ لاہور مال روڈ والا جلسہ نہیں ہے، لاہور میں خالی کرسیوں کا جم غفیر تھا، جڑانوالہ کے شیروں کے جلسے کا کوئی مقابلہ نہیں، فیصل آباد والے ہمیشہ فیصلہ دیتے ہیں، جڑانوالہ کے لوگ نااہلی کے فیصلے کو نہیں مانتے، بیٹے سے تنخواہ نہ لینا بھی کیا باپ کا جرم ہوتا ہے؟نواز شریف نے یہ بھی کہا کہ تنخواہ نہ لینے پر وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا، الیکشن میں یہی جذبہ نئے پاکستان کا ریفرنڈم بنے گا، نئے پاکستان میں لوگوں کو باعزت روزگار ملے گا، 5 سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ پورا کر دیا، جڑانوالہ کے شہریوں سے موٹروے کا وعدہ بھی پورا کر دیا، جب ایٹمی دھماکے کئے تو کوئی دہشتگردی نہیں تھی، ملک ترقی کر رہا تھا، لوگوں کو روزگار مل رہا تھا اور پاکستان ایشین ٹائیگر بننے جا رہا تھا لیکن مشرف نے مارشل لاء لگا کر پاکستان کو تباہ کر دیا۔نواز شریف نے کہا کہ پاکستان پھر انتشار کا شکار ہو رہا ہے، ڈرون حملے پھر شروع ہو گئے ہیں، اوباما سے کہا تھا کہ پاکستان خود مختار ملک ہے۔ انہوں نے عوام سے کہا کہ آپ میرے اور میں آپ کا ہوں، آپ نے مجھے وزیر اعظم بنایا تھا اور جڑانوالہ اب ضلع بھی بنے گا، یہ لوگ پاکستان کی کیا خدمت کریں گے؟ یہ تو اپنے آپ کو سنبھال نہیں سکتے، آپ کو کیسے سنبھالیں گے؟ شہباز شریف کی محنت کی وجہ سے آج پنجاب بدلا ہوا ہے

 فیصل آباد، بہاولپور اور ساہیوال میں بھی میٹرو بس کی باری آئیگی، میٹرو کو نئے پاکستان والے جنگلہ بس کہتے تھے، اب انہیں بھی میٹرو بس بنانے کا خیال آ گیا ہے۔سابق وزیر اعظم نے مزید کہا کہ ہمیشہ کیلئے بھی نااہل کر دو تو بھی میرا عوام سے رشتہ نہیں ٹوٹے گا، ووٹ کے تقدس کو پامال نہیں ہونے دیں گے، بولو میرا ساتھ دو گے؟نواز شریف نے خطاب کے دوران ڈرون کیمروں کو دیکھ کر دلچسپ انداز اپنایا، بولے ڈرون کیمروں میں ہمت نہیں کہ میرے آس پاس آئیں، بجلی کی تار سے ڈرنے والے ہم سے ٹکر لینا چاہتے ہیں۔ نواز شریف نے نام لئے بغیر طاہر القادری پر تنقید کے نشتر چلائے، بولے انہوں نے اپنا، لاڈلے اور سندھ سے آنے والے کا بھٹہ بھی بٹھا دیا، الیکشن میں بھی ان کا بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ علاوہ ازیں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی اور رہنماء مسلم لیگ نون مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف سے 3 نسلوں کا حساب لیا گیا لیکن پھر بھی اس کیخلاف ایک پیسے کی کرپشن ثابت نہیں ہوئی۔مریم نواز نے کہا کہ پانامہ میں نواز شریف کا نام نہیں تھا لیکن انہیں پھر بھی نکال دیا گیا۔ انہوں نے اہل جڑانوالہ سے استفسار کیا کہ جہاں منتخب وزیر اعظم کو نکال دیا جائے کیا ایسا پاکستان چاہئے؟ جہاں عوام کے ووٹوں کی اہمیت نہ ہو کیا ایسا پاکستان منظور ہے؟ جہاں آئین توڑنے والے مشرف کو عدالت میں بلانے کی جرات نہ ہو کیا ایسا پاکستان منظور ہے؟ کیا ایسا پاکستان چاہئے جہاں سزا پہلے ملے اور مقدمے بعد میں بنیں؟مریم نواز نے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ عدل کی بحالی کی تحریک میں نواز شریف کا ساتھ دیں، عوام کی عدالت سب سے بڑی عدالت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ 70 سال میں ایک بھی وزیر اعظم نے مدت پوری نہیں کی۔انہوں نے مزید کہا کہ ووٹ کی بے توقیری منظورنہیں، لاڈلے کو کمپنی کا اعتراف کرنے کے باوجود صداقت کا سرٹیفکیٹ دے دیا گیا ہے، اٹھو نواز شریف کے دشمنوں کو سبق سکھا دو۔

افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کا پولیس چوکی پر خودکش دھماکہ،95افراد ہلاک،158زخمی

کابل (مانیٹرنگ ڈیسک،نیٹ نیوز)افغانستان کے دارالحکومت کابل کے ریڈ زون میں طالبان نے پولیس چوکی پرخودکش دھماکہ کیا جس میں کم ازکم 95افراد ہلاک اور 158 زخمی ہوگئے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کا پولیس چوکی پر خودکش دھماکہ،95افراد ہلاک،158زخمی
افغان وزارت صحت کے ترجمان وحید مجروح کا کہنا تھا کہ 'دھماکے میں اب تک ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 95 تک پہنچ گئی ہے اور 158 افراد زخمی ہیں۔سرکاری میڈیا سینٹر کے ڈائریکٹر باریالئی ہلالی نے اس سے قبل ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے میڈیا کو آگاہ کیا ہے ۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایک ایمبولینس سوار نے خود کو کابل کے ریڈ زون میں پُر ہجوم علاقے میں دھماکے سے اڑا لیا ۔دھماکہ اس قدر شدید تھا کہ جائے وقوعہ سے کم از کم دو کلومیٹر دور واقع عمارات بھی ہچکولے کھانے لگیں اور شیشے ٹوٹ کر دور دور تک اس کے ٹکڑے پھیل گئے۔ریسکیو اور سیکیورٹی اہلکار فوری طور پر جائے وقوع پہنچے اور لاشوں اور زخمیوں کو قریبی ہسپتال منتقل کیا گیا ۔افغان وزارتِ داخلہ کے نائب ترجمان نصرت رحیمی نے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حملہ آور نے اپنے مذموم مقصد کے لیے ایمبولینس کا استعمال کیا اور جب اسے پہلی چیک پوسٹ پر روکا گیا تو اس نے سکیورٹی اہلکاروں کو بتایا کہ وہ مریض کو ہسپتال لے کر جارہا ہے جبکہ دوسری چیک پوسٹ پر اسے روکنے کی کوشش کی گئی تو اس نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کا پولیس چوکی پر خودکش دھماکہ،95افراد ہلاک،158زخمی
طلوع نیوز کے مطابق دھماکہ وزارت داخلہ کی پرانی عمارت کے قریب دو چیک پوائنٹس کے درمیان ہوا جبکہ اس کی ذمہ داری طالبان نے قبول کرلی۔ پاکستان کی جانب سے کابل کے ریڈ زون میں ہونے والے دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کی گئی ہے۔دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ 'دہشت گرد واقعے میں قیمتی جانوں کے ضیاع پر ہم گہرے دکھ اور رنج کا اظہار کرتے ہیں جہاں اطلاعات کے مطابق کئی افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔واقعے کی پرزور مذمت کرتے ہوئے بیان میں کہا گیا ہے کہ 'پاکستان ہر قسم کی دہشت گردی کی شدید مذمت کرتا ہے۔دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ریاستوں کے مابین موثر تعاون اور کوششوں کی اشد ضرورت ہے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں طالبان کا پولیس چوکی پر خودکش دھماکہ،95افراد ہلاک،158زخمی

سیاستدانوں اور ڈکٹیٹروں کی نایاب تصاویر،بچپن،جوانی اور وہ سب کچھ جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں

زیر نظر تصویر میں ڈکٹیٹر جنرل ر ضیاء الحق مرحوم ایک میٹنگ کے دوران پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے احترام میں عاجزی سے کھڑے ہیں جبکہ انہوں نے بعد میں نہ صرف ملک میں مارشل لا لگایا بلکہ ذوالفقار بھٹو کو قتل کے جھوٹے مقدمے میں پھانسی  دلوائی  تھی 
مسلم ممالک کی پہلی وزیراعظم اور پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کی بچپن کی نایاب تصویر،بینظرنے والد کی پھانسی کے بعد اس وقت کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق کا بھرپور مقابلہ کیا اور صعوبتیں بھی برداشت کیں،بینظیر بھٹو پاکستان کی دو دفعہ وزیراعظم رہیں انہیں 2007 میں الیکشن مہم کے دوران منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا تھا
پاکستان کو 19992 میں کرکٹ کا عالمی کپ جتوانے والے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی یاد گار تصویر جس میں وہ سکول میں پوزیشن حاصل کرنے کے بعد ٹرافیوں کے ہمراہ کھڑے ہیں،یاد رہے عمران خان کو کرکٹرز کے
طور پر تمام پاکستانی پسند کرتے ہیں 

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی اپنی والدہ،،والد اور بہنوں کے ساتھ یادگار تصویر
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف جوخود کو خادم اعلیٰ پنجاب کہلوانا پسند کرتے ہیں ان کی جوانی کی یاد گار تصویر۔شہباز شریف نے پلوں،میٹرو بس،اورنج ٹرین اور سڑکیں بنا کر کافی شہرت حاصل کی 
مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے والے پرویز مشرف کی جوانی کی تصویر

حیران اور پریشان کر دینے والی تصویر

یہ تصویر دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے ایک ہی لڑکا ہو مگر تھوڑا غور کیا جائے تو پتہ چلے گا یہ فوٹو گرافر کا کمال ہے یہ ایک نہیں دو لڑکے ہیں۔

شہداء ماڈل ٹائون،ڈاکٹر طاہرلقادری کاسیاسی الائنس،پالیمنٹ اور سپریم کورٹ ؟

 شہداء ماڈل ٹائون،ڈاکٹر طاہرلقادری کاسیاسی الائنس،پالیمنٹ اور سپریم کورٹ ؟
 2012میں پاکستان پیپلز پارٹی کے دور اقتدار کے چند سال باقی تھے کہ سربراہ ادارہ منہاج القرآن و پاکستان عوامی تحریک علامہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان میں بد ترین عوامی حالات کو بدلنے کے نام پر لاہور سے اسلام آباد میں دھرنا دینے کے لئے قافلہ نکالا سردی کے سخت موسم کے باوجود جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد کے باسی صبح سے ہی ایکسپریس ہائی وے کے دونوں جانب پہنچ گئے جی ٹی روڈ پر بے پناہ عوامی پذیرائی کے باعث ان کا یہ قافلہ نصف شب کے قریب شہر اقتدار وارد ہوااور شاہراہ دستور پر دھرنا دے دیا ،یہ دھرنا کئی دن جاری رہا بالآخر مذاکرات کے بعد حکومت نے شرکاء کو گھروں تک پہنچانے کے لئے ٹرانسپورٹ تک مہیا کی،اس دوران علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کی انتہائی جذباتی تقاریر میں موجودہ نظام کو بدلنے پر سارا زور تھا ملک میں کئی دہائیوں سے پسی ہوئی اور آج تک پسنے والی قوم کی حالت بدلی جا سکے،بعد میں قومی انتخابات میں عوامی امنگوں کے عین مطابق منشور کا پر چار اور پیپلز پارٹی کے سربراہ و صدر مملکت آصف علی زرداری کو لوٹی دولت پیٹ سے نکالنے اور گلیوں میں گھسیٹنے جیسی جذباتی تقاریر میں عوام کو اپنی جانب مائل کر لیا،وقت گذرتا چلا گیا موجودہ حکومت کے ایک سال گذرنے کے قریب ڈاکٹر طاہرالقادری نے کینیڈا سے حکومت کے خلاف مہم کا اعلان کر دیادوسری جانب پی ٹی اے نے بھی لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے پر تول لئے،طاہر القادری کی واپسی سے قبل پنجاب حکومت نے کچھ ارادے باندھ کر ادارہ منہاج القرآن ماڈل ٹائون پر بیرئیرز ہٹانے کے نام پر ہلہ بول دیا دل دہلا دینے والے مناظر ساری دنیا نے دیکھے جن میں 14افراد جن میں عورتیں بھی شامل تھیں شہید کر دیا کارکنوں پر بربریت کا پہاڑ توڑ دیا گیا،اس کے بعدلانگ مارچ ہوا ،دھرنا ہوا پی ٹی آئی پاکستان عوامی تحریک کے متوازی چلتی رہی،دھرنا اور لانگ مارچ میں یہ یکجا ضرور تھے مگر مسلمہ حقیقت تو یہی تھی کہ عمران خان موجودہ نظام کے حامی کے طور پر نکلے اور ڈاکٹر طاہر القادری اس نظام کو یکسر بدلنے کے منشور پر قائم تھے،ان طویل ترین دھرنوں میں ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکن ہر مقام پر ڈٹے رہے مگر پی ٹی آئی کے کارکنان تیار ہو کر شام کو آتے اور نصف شب کے قریب لوٹ جاتے،بالآخر طاہر القادری کو جب یقین ہو گیا کہ اس بار بھی کامیابی کا زینہ ان سے روٹھ چکا اور عمران خان کی جموعی سوچ ان سے مختلف ہے تو انہوں وہاں سے کوچ کیا ،بعد میں سانحہ اے پی ایس تک عمران خان کا دھرنا بھی جاری رہا ،جب کئی دن عمران خان کا اسلام آباد میں اکلوتا دھرنا رہا تو الراقم نے لکھا تھا اب کنٹینر پر کیمروں کے سامنے ٹہلنے والے عمران خان کے کانوں میں وہاں سے گذرنے والی ہوا یہ سرگوشی ضرور کرتی ہو گی کہ یہ تنہائی کیسی ہے؟ وقت کا دھارا چلتا رہا ڈکٹر طاہر القادری کئی بار پاکستان آئے مگر سوائے تقریری جدوجہد کے وہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے لئے کچھ نہ کر سکے،اب کی بار وہ کینیڈا سے واپس آئے تو اس سانحہ پر جسٹس باقر نجفی رپورٹ عدلیہ کے حکم پر سامنے آ گئی،پہلے دو بار ڈاکٹر طاہر القادری نظام کی تبدیلی میں دومرتبہ انتہائی جدوجہد کے باوجو دمات کھا چکے تھے مگر اس بار وہ سانحہ ماڈل ٹائون کے شہداء کے حوالے سے نئی بنی پالیسی جس کا نہ جانے انہیں کس نے مشورہ عنایت فرمایا اس وقت تک وہ بری طرح ناکام نظر آتے ہیں ان کی اس ناکامی کے پیچھے کئی اہم دماغوں کی صلاحیتیوں کا کمال تھا،انہوں نے ماڈل ٹائون میں40 سے زائدسیاسی و مذہبی جماعتوں کو دعوت دی سب کھینچے چلے آئے ان میں پاکستان تحریک انصاف،پیپلز پارٹی ،مسلم لیگ (ق)،مجلس وحدت المسلمین ،اہل سنت والجماعت ،جے یو آئی (س) اور عوامی مسلم لیگ بھی شامل تھیںمشاورت کے بعد 17 جنوری کو لاہور کے اہم ترین علاقہ مال روڈ پر احتجاجی تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا گیا،اس احتجاجی جلسہ میں ڈاکٹر طاہر القادری سمیت وہ سب اہم شخصیات شامل تھیں جو ماضی میں اپنی اپنی تقاریر میں ایک دوسرے کے خلاف بدترین لفظی گولہ باری کرتے رہے،طاہر القادری کا پہلا دھرنا آصف علی زرداری کے خلاف ہی تھا،شہداء سانحہ ماڈل ٹائون کے انصاف کے حصول کے لئے سجی محفل میں اہم سیاسی لیڈران آگے مگر ایک ساتھ نہیں،دوسرے سیشن میں پی ٹی آئی اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہان عمران خان اور شیخ رشید کی جذباتی تقاریر جس میں نااہل شخص کے حق میں ووٹنگ اور ختم نبوت ﷺ کے حوالے سے تبدیلی کی مذموم کوشش پر پالیمنٹ پر لعنت جیسے الفاظ ادا کر دئیے،(الراقم پارلیمنٹ کو بطور ادارہ کسی صورت لعنت بھیجنے کے حق میں نہیں ) مگر اس بیان پر وہ طوفان برپا کیا گیا کہ ماڈل ٹائون میں شہید ہونے والوں کی روح ضرور تڑپی ہو گی تب شاید علامہ طاہر القادری کی نیند بھی روٹھ گئی ہو گی کہ وہ کرنا کیا چاہتے تھے اور ہو کیا گیا؟اس وطن میں بسنے والی عوام اس لحاظ سے ضرور بدقسمت واقع ہوئی کہ انہیں جب بھی کسی بہتری کی آس نظر آتی ہے تب ایسے حالات پیدا کر دئیے جاتے ہیں کہ ان کی بینائی ہی سلب ہو جاتی ہے ،شہداء ماڈل ٹائون کے انصاف کے لئے کیا گیا یہ جتن پاکستان پیپلز پارٹی کے لئے ضرور بہترین اور کسی نعمت سے کم ثابت نہیں ہوا جس کے اگلے چند دن میں نہ جانے روابط کے کتنے تار تھرکے،پی پی پی کو پنجاب میں پائوں جمانے کا سنہری پلیٹ فارم جو انہیں شاہد ملتا ہی نہ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ہاتھوں یہ سب کچھ ہو گیا،جاننے والے سبھی کچھ جانتے ہیں،مان لیا اور مانتے ہیں کہ پارلیمنٹ مقدس ترین ادارہ ہے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ جنہوں نے اپنے دور حکومت اور بطور اپوزیشن لیڈر عوام کی بربادی میں برابر اور بھرپور کردار کے حامل ہیں دنیا کے کسی بھی جمہوری ملک میں اپوزیشن لیڈر کی ذمہ داریاں ہوتی کیا ہیں اور یہاں کیا کردار ادا ہوا ؟دوسرے دن قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے کی گئی تقریریں اور شدید رد عمل چیخ چیخ کر واضح کر رہا تھا یہ سب ایک ہی ہیں ان میں سوئی برابر بھی دوری نہیں اور جو دوری ظاہر کی جاتی ہے وہ اپنی پارٹی کی ریٹنگ بڑھانے کے لئے ہوتی ہے تا کہ لوگ سمجھے یہ نہیں وہ ہمارا ہمدرد ہے قیام پاکستان سے لے کر آج تک قوم کے ساتھ یہی چھپن چھپائی کا کھلواڑ کیاجا رہا ہے اسی طرح ان کے حقوق غضب کئے جا رہے ہیں،جب بھی الیکشن قریب آتے ہیں یہ ایک دوسرے کے تہوں میں پڑے راز اور لوٹ مار بھی عوام کے سامنے لے آتے ہیں تہذیب کا ،بہتر روایات کاجنازہ نکال دیا جاتا ہے تا کہ ان کا ووٹ پھر سے زندہ ہو جائے،خیر ہر قومی و صوبائی اسمبلیوں کے تمام ارکان کرپٹ نہیں ہوتے مگر کیا آج تک مقننہ نے نظام عدل میں میں رائج صدیوں پرانے قانون کو بہتر کیاْ؟ عوام کی بہتری کے لئے کیا اقدامات یا اصلاحات لائی گئیں؟آج تک عوام کو صاف پانی مل سکا؟تعلیم و صحت میں عوام خود کفیل ہیں؟قبضہ گروپس کن لوگوں کے ہیں؟منی لانڈرنگ میں کون ملوث ہیں؟بیرون ممالک کس طبقہ کے اثاثے اور جائدادیں ہیں ؟ملک و قوم کو قرضوں میں جکڑنے والے کون ہیں؟کرپشن کے شہنشاہ کون ہیں؟قومی اداروں کو اپاہج اور لولا لنگڑا کس نے بنایا؟تمام بڑے قومی اداروں پر کرپٹ حاضر سروس یا ریٹائرڈ بیوروکریٹس کو تعیناتی کون کرتا ہے؟اس گندے فرسودہ اور بدبودار نظام کی آبیاری کن کے ہاتھوں ہوتے ہیں؟ماورائے عدالت قتل کن کی پشت پناہی سے ہوتے ہیں؟اس طرح کے ایسے نہ جانے کتنے تکلیف دہ سوال ہیں مگر کس کس کا ذکر کیا جائے؟پارلیمنٹ کے بعد حکومت کا سب سے بڑا ستون عدلیہ ہے ،پانامہ لیکس کے بعد اعلیٰ ترین عدلیہ کے حکم پر جے آئی ٹی کی انکوائری کے بعد میاں نواز شریف کو نااہل کر دیا اور مزید کرپشن یاناجائز اثاثہ جات کے مقدمات زیر سماعت ہیں مگر جو کچھ عدلیہ کے بارے ہرزا سرائی اور سر عام تذلیل کی جاتی ہے ،اعلیٰ عدلیہ کے جسٹس صاحبان کو محض افراد کہا جا جاتا ہے ،عوامی جلسوں میں سپریم کورٹ کے بارے میںShame Shameکے نعرے لگوائے جاتے ہیں،انہیں دھمکیاں دی جاتی ہیں ،انہیں کسی عالمی سازش کا مہرہ ثابت کرنے کا گھٹیا ترین الزام لگایا جا تا ہے،وزیر اعظم کہتا ہے اس عدلیہ کے فیصلے ردی کی ٹوکری میں ہوں گے،اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے سربراہ ،خورشید شاہ سمیت دیگر اہم رہنماء بھی عدلیہ پر شریف خاندان کی طرح چڑھائی کئے ہوئے ہے ،اس کے علاوہ پاکستان کی محافظ اور دنیا کی بہترین فوج کو نام لئے بغیر اسے بہت کچھ کہا جاتا ہے ،کیا ان تمام قباحتوں،عوامی حقوق کو غضب کئے جانے،عدلیہ کے خلاف پاکستانی تاریخ کی بدترین سر عام لعن طعن کئے جانے،ختم نبوت ؐکے قانون میں ترمیم کے بارے ان کی بصیرت اور بصارت کہاں ہے؟یہ سب معزز و مقدس پارلیمنٹ کے اراکین کی نظروں سے اوجھل ہے؟کچھ تو شرم یا حیا ہو تی کہ اس وطن میں بسنے والی قوم کو اپنا سمجھا جائے،حال ہی میں کراچی میں بے گناہ نوجوانوں کی ہلاکت اور قصور میں معصوم زینب کا معاملہ بد ترین معاشرتی پستی اور المیہ ہے جس کے ذمہ دار بھی ہمارے حکمران ہیں جنہوں نے اس قوم کو محرومیوں اور پستیوں میں رکھنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جہاں نظام ہی گندہ ہو وہاں گندگی تو ہو گی،ؑعلامہ ڈاکٹر طاہر القادری اور اس کے ساتھیوں سے یہ غلط فیصلہ کروا لیا گیا،ڈاکٹر طاہر القادری یہ بھی فراموش کر گئے کہ وہ جن کو انپا دوست سمجھ رہے ہیں جن کے بارے کیا کیا کچھ نہیں کہتے رہے اگر وہ ٹھیک ہیں یا تھے تو پھر ان کا یہ مقام تھا کہ ان کے بارے میں ناقابل بیان الفاظ استعمال کرتے ،میرے جیسا عام آدمی بھی طاہر القادری کے اس قول و فعل کے واضح نظر آنے والے تضاد پر حیران و پریشان ہے ،ایک تو پہلے ہی شہداء ماڈل ٹائون سے انصاف کوسوں دور تھا جسے ادارہ منہاج القرآن نے خود مزید دور کر دیا ہے،جس طرح شہر اقتدار میں کنٹینر پر مارگلہ سے آنے والی ہوا عمران خان پر ہنستی تھیں آج اسی ہی طرح ہوائیں اور لمحات بیڈروم سمیت ہر جگہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ہمرکاب ہیں ان کی سوچوں پر حاوی ہوں گے،ہنستے ہوں گے ،ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کا رکنان ڈاکٹر طاہرالقادری اور ادارے سے بہت مخلص ہیں ڈاکٹر طاہر القادری کو انہی پر ہی بھروسا کرنا ہو گا اگر انہیں اپنے شہداء بیٹے اور بیٹیوں کے لئے انصاف چاہئے تو۔
رابطہ نمبر 0300 6969277...0344 6748477 

جمعہ، 26 جنوری، 2018

ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے(جون ایلیا)


ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے(جون ایلیا)
جون ایلیا کی جوانی کی یادگار تصویر 
ہم آندھیوں کے بن میں کسی کارواں کے تھے 
جانے کہاں سے آئے ہیں جانے کہاں کے تھے 

اے جان داستاں تجھے آیا کبھی خیال 
وہ لوگ کیا ہوئے جو تری داستاں کے تھے 

ہم تیرے آستاں پہ یہ کہنے کو آئے ہیں 
وہ خاک ہو گئے جو ترے آستاں کے تھے 

مل کر تپاک سے نہ ہمیں کیجیے اداس 
خاطر نہ کیجیے کبھی ہم بھی یہاں کے تھے 

کیا پوچھتے ہو نام و نشان مسافراں 
ہندوستاں میں آئے ہیں ہندوستاں کے تھے 

اب خاک اڑ رہی ہے یہاں انتظار کی 
اے دل یہ بام و در کسی جان جہاں کے تھے 

ہم کس کو دیں بھلا در و دیوار کا حساب 
یہ ہم جو ہیں زمیں کے نہ تھے آسماں کے تھے 

ہم سے چھنا ہے ناف پیالہ ترا میاں 
گویا ازل سے ہم صف لب تشنگاں کے تھے 

ہم کو حقیقتوں نے کیا ہے خراب و خوار 
ہم خواب خواب اور گمان گماں کے تھے 

صد یاد یاد جونؔ وہ ہنگام دل کہ جب 
ہم ایک گام کے نہ تھے پر ہفت خواں کے تھے 

وہ رشتہ ہائے ذات جو برباد ہو گئے 
میرے گماں کے تھے کہ تمہارے گماں کے تھے 

نقیب اللہ کے پاس اسلحہ نہیں تھا،رائو انوار نے جعلی پولیس مقابلے میں مارا،رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

کراچی(حرمت قلم ڈیسک) سندھ پولیس نے کراچی کے علاقے شاہ لطیف ٹائون میں مبینہ پولیس مقابلے میں مارے گئے نقیب اللہ محسود کے حوالے سے تحقیقاتی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کروا دی . جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ مقتول کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ 15 صفحات پر مشتمل ہے۔ رپورٹ کے ساتھ دستاویزات بھی منسلک کی گئی ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار احمد کے خلاف سنگین الزامات عائد کئے گئے ہیں. سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جانب سے نقیب اللہ محسود کی جعلی پولیس مقابلے میں ہلاکت کا ازخودنوٹس لیا گیا تھا اور پولیس کی جانب
نقیب اللہ کے پاس اسلحہ نہیں تھا،رائو انوار نے جعلی پولیس مقابلے میں مارا،رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع
سے ابتدائی رپورٹ پہلے ہی عدالت عظمیٰ میں جمع کروا دی گئی تھی۔
 تاہم اب 15 صفحات پر مشتمل حتمی رپورٹ بھی جمع کروا دی گئی ہے۔ راؤ انوار پر الزامات کے حوالے سے مختلف دستاویزات بھی رپورٹ کے ساتھ منسلک کی گئی ہیں۔ رپورٹ میں نقیب اللہ محسود کے ساتھ گرفتار ہونے والے دو افراد کے بیانات بھی شامل کئے گئے ہیں جن کو بعد میں رشوت لے کر چھوڑ دیا گیا تھا۔راؤ انوار نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم قاری احسان کا ساتھی ہے مگر جب قاری احسان کا انٹرویو کیا گیا تو قاری احسان نے اسے شناخت نہیں کیا جبکہ قاری احسان نے پولیس کو بتایا کہ جس وقت اسے قید کیا گیا تھا 47 کے قریب دیگر ملزمان بھی اس کے ساتھ تھے اور ان میں سے نکال نکال کر پولیس ان کو مقابلوں میں مار دیتی تھی جبکہ جائے وقوعہ کے دورہ کے حوالے سے حاصل شواہد کو بھی رپورٹ کا حصہ بنایا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ جائے وقوعہ پر پولیس مقابلے کے کوئی شواہد نہیں ملے بلکہ ان کو قتل کرنے کے شواہد ملے ہیں۔رپورٹ کے مطابق پولیس حراست کے دوران جس نجی عقوبت خانے میں 47 افراد کورکھا گیا .کال کوٹھڑی نما کمرے سے پولیس چار، پانچ افراد کو لے جا کر مقابلے میں مار دیتی تھی۔ پولیس مقابلے کے مقام پر مارے گئے افراد کی جانب سے فائرنگ کرنے کے شواہد نہیں ملے۔ چاروں افراد پر یکطرفہ طور پر پولیس کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ جائے وقوعہ سے سب مشین گن کے 26 خول ملے۔ رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلے کی سرکاری ایف آئی آر کے پہلے تفتیشی افسر نے انکشاف کئے۔ تفتیشی افسر کو ایس پی انوسٹی گیشن نے خاموش رہنے کی ہدایت
کی۔
تحقیقاتی کمیٹی کے دورہ کے بعد سابقہ تفتیشی افسر کو مقابلے میں مارنے کی دھمکی دی۔ رپورٹ کے مطابق راؤ انوار کو بیان کے لئے طلب کیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔ راؤ انوار کے گھر کے باہر نوٹس بھی چسپاں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق پولیس مقابلے میں ملوث کوئی پولیس افسر بیان دینے کے لئے نہیں آیا۔ راؤ انوار کی طرح تمام پولیس افسر اور اہلکار روپوش ہو گئے ہیں۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کی سماعت آج (ہفتہ) کے روز سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں کرے گی۔

اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کی کتاب قانون کی حاکمیت شائع ہوگئی

اُردو زبان میں پاکستان کے مروجہ قوانین کی تحقیق کے حوالے سے بہت کم لکھا گیا ہے۔ اِس حوالے سے انتہائی تحقیق پر مبنی اعلی عدلیہ کے فیصلہ جات اور قانونی نظائر کی عام فہم تشریحات کا مجموعہ کتابی صورت میں صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے تحریر کیا ہے۔
کسی بھی معاشرے میں اِس کے باسیوں کے مابین رہنے سہنے اور ایک دوسرے کے ساتھ اچھے بُرے برتائو کے کچھ اصول و ضوبط ہوا کرتے ہیں۔یہ اصول و ضوابط ہر معاشرے کے لیے علیحیدہ علحیدہ ہوتے ہیں۔ گویا ہر معاشرے یا گروہ ایک دوسرے سے الگ الگ زندگی کے اصول و ضوابط پر عمل پیرا ہوتا ہے۔اِسی رہن سہن کے نفاذ کے سبب ہی اِس معاشرے کی پہچان ہو پاتی ہے۔جو لوگ اپنے اپنے معاشرے کی پیروی کرتے ہیں وہی لوگ اِس معاشرے کے پُرامن شہری کہلاتے ہیں۔ پُر امن شہری سے مُراد پُر اُمن ماحول، پُرامن ملک۔ اِس لیے عالمی سطع پر اقوام کے مابین طے پاجانے والے معاہدے عالمی اصول و ضوابظ کی شکل اختیار کر جاتے ہیں۔جنہیں اقوام عالم کے مابین تعلقات کو پُرامن بنانے کے لیے زیر مطالعہ لایا جاتا ہے۔
گویا آج کا انسانی ذہن اِس بلند ترین سطع تک رسائی حاصل کر چُکا ہے جہاں سے آسانی سے ہر کوئی یہ کہتا نظر آتا ہے کہ قوانین سے عدم آگہی و عدم شناسی ناقابل قبول بہانہ ہے۔ یہ بات نہ صرف انسانی نقطہ نظر کی ترقی بلکہ معاشری ترقی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ مگر وہ معاشرے جہاں لوگوں میںناخواندگی کی شرح بہت زیادہ ہو ۔ علم کی کمی ہو۔ سکولوں میںتعلیم ادھورہ چھوڑنے کا رحجان بہت زیادہ ہو۔ بنیادی انسانی حقوق سے محرومی بلکہ ناواقفیت بھی عام ہو۔ وہاں کون قانون طلب و رسد کی بات کرے اگر کوئی کرے بھی تو کس حد تک کرسکتا ہے۔جبکہ تیسری دُنیا کے ممالک نو آبادیاتی نظام کا حصہ رہے ہیں۔اِس لیے اِن ممالک میں ایک بڑا مسئلہ قومی زبان کا بھی ہے۔ ایسے ممالک میں عام طور پر حکمران ممالک کی زبان میں کاروبار ِ حکومت چلایا رہا ہوتا ہے۔جس کے سبب اِن ممالک کے عوام علوم وفنون اور خصوصاً قانونی معاملات اور اپنے بنیادی حقوق سے نابلد رہتے ہیں یا انہیں بزور نابلد رکھا جاتا ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کوگزشتہ تین دہائیوں کی پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے ہاں بھی کچھ ایسا ہی
ماحول نظر آیا ہے۔
ہماری % 70 فیصد آبادی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔کروڑوں افراد صحت و صفائی اور پینے کے صاف پانی تک سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کی سطع خطے کے دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے بلند ہے۔ سکول و کالج کی بنیادی تعلیم سے لاکھوں افراد دور رہنے پر مجبور نظر آتے ہیں۔تو کون کس طرح اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ جبکہ اِسے ا پنے حقوق سے آگہی اور ملکی قوانین کی سوجھ بوجھ ہی نہ ہو۔ تمام قانون کی کتب غیر ملکی زبان میں ہونے کے سبب کوئی پھر کیوں نہ کہے گا کہ مجھے قانونی کُتب تک رسائی نہیں ہوئی یا مجھے ملکی قانونی کا علم نہ تھا۔  
جی ہاں جب تک ریاست اپنے شہریوں کو ترقی کے یکساں ذرائع و مواقع فراہم نہیں کرتی تو کو ئی کس طرح ایسے امتیازی سلوک والے معاشرہ کو پُرامن معاشرہ یا پُرامن ملک کہ سکتا ہے۔کچھ ایسے ہی خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے زیرِ نظر کتاب" قانون کی حاکمیت " خصوصاً قومی زبان اُردو میں تحریر کی گئی ہے۔جس میں خصوصیت کے ساتھ ایسے قانونی موضوعات کو زیرِ بحث لایا گیا ہے جو کہ عوام النا س کی زندگی کے قریب ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے کتاب میں انتہائی ریسرچ کے حامل مضامین لکھے ہیں ۔ یہ کتاب نہ صرف قانون کے طالب علموں، صحافت سے وابستہ افراد اور عام قارئین کے لیے انتہائی سود مند ہے بلکہ اِس کے ساتھ ساتھ یہ کتاب سول جج، ایڈیشنل سیشن جج، پبلک پراسیکیوٹرز کے امتحانات میں بھی ممدو معاون ثابت ہو گی۔ کتاب کوعرفان لاء بکس پبلشرز ٹرنر روڈ نزد ر ہائی کورٹ لاہور نے شائع کیا ہے اور اِس کو دیدہ زیب صفحات پہ چھاپا گیا ہے۔صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ کا آبائی شہر لاہورہے۔ اِن کے والد محترم صاحبزادہ میاں عمردراز ؒمرحوم اُستاد تھے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ نے اپنا بچپن اپنے ماموں جان حضرت حکیم عنائت قادری نوشاہیؒ کے زیر سایہ گزارہ۔گورنمنٹ جامعہ ہائی سکول سرگودہا سے میٹرک اور گورنمنٹ کالج آف کامرس سرگودہا سے بی کام کیا۔ معاشیات ، بزنس ایڈمنسٹریشن، ایجوکیشن میں ماسٹرزکیے۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایل ایل بی کیااور ایل ایل ایم کریمنالوجی کی ڈگری کے بھی حامل ہیں۔ اسلاملک لاء میں پوسٹ گریجویٹ ڈپلومہ بھی کیا ہے۔ دو دہائیوںسے قانون کی درس و تدریس سے بھی وابستہ ہیں۔عشق رسول ﷺ کی سرخیل تنظیم انجمن طلبہء اسلام سے تعلق رہا ہے۔ برصغیر پاک وہند کے عظیم صوفی بزرگ حضرت حافظ میاں محمد اسماعیل ؒ المعروف حضرت میاں وڈا صاحبؒ لاہوری کے خانوادے سے تعلق ہے۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ کے دادا حافظ میاں محمد اسماعیلؒ اور پرداد حضرت حافظ میاں محمد ابراہیمؒ متحدہ ہندوستان میں پولیس کے محکمہ میں بطور افسر خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ان کا خاندان صدیوں سے لاہور میں رہائش پذیر ہے۔ لاہور میں بھاٹی دروازے کے بائیں جانب مسجد ابراہیمؒ اِن کے پرداد اکے نام سے منسوب ہے جو اُنھوں نے تعمیر کروائی تھی۔
صاحبزادہ اشرف عاصمی ایڈووکیٹ مختلف قومی و بین الا قوامی اخبارات و جرائدمیں سماجی اور قانونی موضوعات پر کالم لکھتے ہیں۔کالم نگاروں کی عالمگیر تنظیم ورلڈکالمسٹ کلب کے سنئیر نائب صدر ہیں۔ انسانی حقوق کے حوالے سے انتہائی فعال کردار ادا کر رہے ہیں۔ ہیومن رائٹس کمیٹی پنجاب لاہور ہائی کورٹ بار کے چیئرمین ہیں اور تحفظ ناموس رسالتﷺ کمیٹی لاہور بار ایسوسی ایشن کے بانی چیئرمین ہیں۔ صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ سلسلہ قادریہ نوشاہیہ میں حضرت حکیم میاں محمد عنائت خان قادری نوشاہی ؒ آف زاویہ نوشاہی سرگودہاکے خلیفہ مجاز ہیں۔

جمعرات، 25 جنوری، 2018

دنیا کو حیران اور پریشان کردینے والی خبر،خاتون کا موت کے دس روز بعد بچے کو جنم

کیپ ٹائون(حرمت قلم نیوز)جنوبی افریقہ میں اپنی نوعیت کے ایک انوکھے اور حیران کن واقعے میں خاتون نے اپنی موت کے دس روز بعد بچے کو جنم دیاجسے دیکھ کر ڈاکٹر بھی حیران رہ گئے۔ واقعہ جنوبی افریقہ کے جنوب مشرق میں واقع ایک دیہات میں پیش آیا جہاں 33 سالہ حاملہ خاتون نومفیلیسو نوماسونتو کو چند روز قبل گھر میں رہتے ہوئے سانس میں شدید تکلیف ہوئی جسے بر وقت علاج فراہم کیا گیا تاہم وہ جانبر نہ ہو سکی۔خاتون کی موت کے 10 ویں روز اس کے جنازے کے موقع پر آخری رسومات کی ذمّے دار کمپنی کے ملازمین نے دیکھا کہ میت کی پنڈلیوں کے بیچ ایک نومولود بچہ موجود ہے جس کے بعد خاتون اور اس کے مردہ بچّے کو ایک بڑے تابوت میں دفن کیا گیا۔ مردہ خاتون کے رحم سے بچے کی پیدائش کی طبی وجوہات کے حوالے سے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ موت کے بعد جسم کے پٹھے ڈھیلے پڑ جاتے ہیں جس کے سبب بچے کو رحم سے باہر آنے میں مدد 
ملی تھی ۔


کے پی کے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم،جے یو آئی اپوزیشن لیڈر سے محروم ہو سکتی ہے

مسلم لیگ ن اور جمعیت علمااسلام (ف )اپوزیشن لیڈر کیلئے آمنے سامنے،ن کے اسمبلی میں 16جبکہ جے یو آئی کے 15ارکان
کے پی کے میں پی ٹی آئی کی پوزیشن مستحکم،جے یو آئی اپوزیشن لیڈر سے محروم ہو سکتی ہے
جے یو آئی کے رہنماعمران خان سے ملاقات کرتے ہوئے
لاہور ( حرمت قلم نیوز ) جے یو آئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں تیسری پوزیشن پر آ گئی، جے یو آئی سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ بھی چھن جانے کا امکان ہے۔خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ سے جے یو آئی کے ٹکٹ پر منتخب رکن صوبائی اسمبلی فضل شکور تحریک انصاف میں شامل ہو گئے ہیں جس کے بعد جے یو آئی کے قائدین نے فضل شکور کو ڈی سیٹ کرنے کے لئے قانونی مشاورت شروع کر دی ہے۔ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر کر الیکشن کمیشن سے رجوع کیا جائے گا۔ایم پی اے فضل شکور کے جانے سے جے یو آئی خیبرپختونخوا اسمبلی میں عددی اعتبار سے تیسری پوزیشن پر آ گئی ہے۔ پی ٹی آئی 61 ارکان کے ساتھ پہلے نمبر پر جبکہ ن لیگ 16ایم پی ایز کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے جبکہ جے یو آئی کے ارکان کے تعداد کم ہو کر 15 ہو گئی ہے۔اپوزیشن لیڈر کا عہدہ جے یو آئی کے مولانالطف الرحمان کے پاس ہے لیکن ایوان میں ارکان کی تعداد کم ہونے سے اب قائد حزب اختلاف کا عہدہ ن لیگ کے پاس چلے جانے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔جے یو آئی اور ن لیگ کے مابین وفاق میں دوریاں بڑھ رہی ہیں جس کے اثرات خیبرپختونخوا میں بھی نظر آسکتے ہیں۔ اور حزب اختلاف کی دونوں جماعتوں کے مابین اپوزیشن لیڈر کی سیٹ پر محاذ آرئی ہو سکتی ہے۔

loading...