|
تحریر:اعظم توقیر
|
ہمارے پرائمری سکول کے استاد محترم (محمد صدیق صاحب مرحوم اللہ تعالیٰ کی ذات با برکات ان کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے)سے جب بھی کوئی قسطوں پر کوئی چیز خریدنے کی بات کرتا تو وہ ہمیشہ فرماتے ’’ میں تو جب بھی قسطوں پر لوں گا ہیلی کاپٹر ہی لوں گا‘‘۔جب کہا جاتا کہ ہیلی کاپٹر۔۔۔؟ تو وہ فرماتے ’’یار جب قسطوں پر ہی لینا ہے تو کیوں نہ کوئی بڑی چیز لی جائے‘‘۔
بحیثیت قوم ۔۔ہمارا المیہ ہے یا روایت۔ کہ ہم ادھار یا قرض میں تو موت بھی خریدنے سے نہیں ہچکچاتے۔کسان زرعی بنکوں کے مقروض ہوتے ہیں اور پھر اپنی زرخیز زمینیں فروخت کرکے قرض اتارتے ہیں۔ بعض اوقات تو قرض اتارتے اتارتے زمیندار سے بے مالک کے عہدے پر بھی فائز ہو جاتے ہیں مگر دوسرے کسان اس انجام سے عبرت نہیں پکڑتے بلکہ وہ بھی سفارشیں ڈھونڈ کر زرعی بنک سے قرضہ لینے کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ سلسلہ گزشتہ چند برسوں سے زور پکڑتا جا رہا ہے۔
زمینیں فروخت ہونے کے بعد مجبورا۔۔ ہم شہروں کا رْخ کرتے ہیں اور اپنی سرسبز زمینوں سے دور۔۔دھواں آلود شہروں میں محنت مزدوری پر مجبور ہو جاتے ہیں۔وہ گندم جو ہم اگاتے تھے،وہ آٹا جو ہم لوگوں کو دیتے تھے ،اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا کے طور پر ہمیں قطاروں میں لگ کر مہنگے داموں خریدنا پڑتا ہے۔بقول شاعر
اب میں راشن کی قطاروں میں نظر آتا ہوں
اپنے کھیتوں سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں
گلی محلوں کی بات کی جائے تو گھر کی اشیا خریدنے کے لیے ہم جیسے مڈل کلاس لوگ اقساط کی دکانوں کا رْخ کرتے ہیں جہاں سے ٹی وی،فریج،ایئر کنڈیشنر سے لے کر موٹرسائیکل تک جو بھی ملے قسطوں پر لے لیتے ہیں اور باقی عمر قسطیں اتارنے میں گزر جاتی ہے مگر قسطیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں۔ آخر کار قسطوں پر خریدی اشیا فروخت کرکے اور محلے داروں سے قرض لے کر جان چھڑائی جاتی ہے مگر جان کب چھوٹتی ہے جان تو اور اک نئے عذاب میں پھنس چکی ہوتی ہے۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ہم قرضے کیوں نہ لیں کہ ہمارا ملک ہی قرضوں کی بنیادوں پر’’ ترقی کی منازل ‘‘طے کررہا ہے۔ جب بھی کوئی نیا حکمران آتا ہے ترقی و خوشحالی کے بلندو بانگ دعوے کرتا ہے ۔پھر حکومت کا دورانیہ مکمل ہونے پر ترقی اور خوشحالی تو نظر نہیں آتی ۔۔ہاں۔۔ قرضوں کے پہاڑ میں اضافہ ضرور ہو جاتا ہے۔ہم بھی عادی ہو چکے ہیں۔قرضوں کے، بے جا ٹیکسوں کے،مہنگی اشیا ضروریہ کے،پٹرول بم کے اور پتا نہیں کس کس اذیت کے۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے دو پارٹیوں کی بادشاہت جھیل رہے ہیں ایک ہے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور دوسری ہماری بچپن کی نعروں والی پاکستان پیپلز پارٹی۔ہم پرائمری سکول کے طالب علم تھے اور بھٹو کے حق میں اور ضیا الحق کے خلاف بھر پور نعرے بازی کرتے تھے حالانکہ ہمیں نہیں پتا تھا کہ بھٹو کون ہے؟۔ضیا الحق کا قصور کیا ہے؟ مگر کچھ نعرے تھے جو ہم دیوانہ وار لگایا کرتے تھے۔شاید اسی لیے بھٹو آج بھی زندہ ہے اور رہے گا۔عوام کل بھی مردوں جیسی زندگی گزار رہے تھے اور آج بھی اسی حال میں ہیں۔
اچھی طرح یاد ہے، آصف علی زرداری کی حکومت تھی،میاں شہباز شریف نے مینار پاکستان ڈیرہ لگایا،ہاتھ والے پنکھے سے گرمی دور کی اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف بھرپور احتجاج کیا،دعوے کیے کہ ہماری حکومت بنی تو زرداری کو گلیوں میں گھسیٹیں گے،پائی پائی کا حساب لیں گے،لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو گا اور دیکھنا ملک میں جگمگ ہو گی،آج ن لیگ کی حکومت کے پانچ سال پورے ہونے کو ہیں مگر لوڈشیڈنگ اپنی جگہ قائم و دائم ہے،مہنگائی نے غریبوں کے چولہے تک بجھا دیے ہیں۔ترقی کا یہ عالم ہے کہ ملک قرضوں کے نیچے اس طرح آچکا ہے جیسے اونٹ پہاڑ کے۔حالت یہ ہے کہ
سو بار چمن مہکا سو بار بہار آئی
دنیا کی وہی رونق دل کی وہی تنہائی
اب پھر مداری آ ئیں گے،اپنی تقاریر کا جادو جگائیں گے،نئے وعدے ہوں گے،کوئی لوڈشیڈنگ ختم کرے گا تو کوئی مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند،کو ئی گھر کا لالچ دے گا تو کوئی غریبوں کو نوکری کا لالچ دے کر ووٹ لیگا اور ہم عوام،ایک بار پھر ان وعدوں پر اعتبار کریں گے اور پانچ سال پورے ہونے پر اونچے سُروں میں بے اختیار گائیں گے۔
غضب کیا تیرے وعدے پہ اعتبار کیا
مگر ہم کر بھی کیا سکتے ہیں ۔سوائے چوروں اور لٹیروں کو اپنا حکمران بنانے کے۔کیوں کہ ہم عادی ہو چکے ہیں غلامی کے،مقروض ہو نے ،اپنے بچوں کو بھوکا سلانے کے،بے روز گاری اور لاچاری کے۔ سو۔۔ چند سرمایہ دار ،جاگیر دار اور چور ڈاکو اسی طرح ہم کو ہانکتے رہیں گے،لوٹتے اور نوچتے رہیں گے۔ہماری زندگی اس شعر کے مصداق تمام ہو جائے گی۔
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن